مہر فاطمہ
آبِ حیات محمد حسین آزاد کا تحریر کردہ تذکرہ ہے۔ آبِ حیات کی اشاعتِ اول سے لے کر اب تک اس پر اعتراضات کا سلسلہ جاری ہے۔اس بات سے تو ہر شخص واقف ہے کہ محمد حسین آزاد صاحبِ طرز انشا پرداز و نثر نگار اور نئی نظم کے بانیوں میں سے ہیں۔یہ وہی آزاد ہیں جن کے سلسلے میں شبلی کا وہ مشہور جملہ ہے کہ آزاد گپ (غپ) بھی ہانک دے، تو وحی معلوم ہوتی ہے۔ جنہیں مہدی افادی نے اردوئے معلی کا ہیرو قرار دیا ،اور بقول مالک رام کہ ان کی تحریروں کو خزاں کا اندیشہ کبھی نہیں ہوسکتا ۔
دنیائے ادب میں محمد حسین آزاد کو کئی میدانوں میں اولیت کا شرف حاصل ہے۔ انھوں نے لسانی مباحث اور تاریخ ادب کی داغ بیل ڈالی۔ کہا جاتا ہے کہ پہلا ڈراما بھی انھوں نے لکھا،اور خاکہ نگاری اور تنقید کے اولین نقوش بھی ان کی تصنیفات میں ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ کتابوں کی تیاری اور ادب اطفال کی تخلیق کا رواج بھی ان سے ہی پڑا۔ تمثیل نگاری ،انشائیہ نگاری اور تاریخ نویسی میں تو ان کا نام امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔
محمد حسین آزاد کی غیر معمولی تصانیف میں دربار اکبری ،نیرنگ خیال ،سخن دان فارس اور نظم آزاد وغیرہ ہیں،لیکن آبِ حیات سب سے زیادہ مشہو رہوئی اور تنقید کا موضوع بنی رہی۔
آبِ حیات کا پہلا ایڈیشن ۱۸۸۰ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد بے شمار ایڈیشن منظر عام پر آئے۔ موجودہ کتاب کی ابتدا میں احتشام حسین کا مقدمہ ہے، جس میں اس کا تعارف ان الفاظ میں ہے:
’’مولانا محمد حسین آزاد کی کتاب آبِ حیات واقعی آبِ حیات ہے۔ اس نے انھیں بھی ہمیشہ کے لیے زندہ کردیا اور ان شاعروں کوبھی جنھیں امرت رس پلا کر انھوں نے امر بنادیا۔‘‘
(مقدمہ آبِ حیات ۔ص ۷)
اس کے بعد مقدمے میں احتشام صاحب نے آزاد کے حالاتِ زندگی اور آبِ حیات کی خصوصیات کو قلمبند کیا ہے، جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
آبِ حیات کی ابتدا میں آزاد نے زبانِ اردو کی تاریخ بیان کی ہے کہ اس کا آغاز کیوں ہوا؟ اس کیوں لوگ ملی جلی زبان بولتے تھے؟ ابتدائی شکل کیا تھی اور کس کس طرح اس نے مراحل طے کیے۔؟وغیرہ وغیرہ۔ اس میں انھوں نے الفاظ کی ساخت اور اس کی اصل سے بھی بحث کی ہے، جس سے ان کی علمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد ادوار کی تقسیم ملتی ہے۔ یعنی انھوں نے شاعروں کے ذکرکو پانچ ادوار میں تقسیم کردیا ہے اور ساتھ ساتھ ہر دو ر کی خصوصیات بھی بیان کی ہے۔
پہلے دور میں ولی ؔاورنگ آبادی اور ان کے ہم عصر شعرا کا ذکر ہے جن میں شاہ مبارک آبروؔ ،شیخ شرف الدین ممنونؔ، محمد شاکر ناجیؔ، محمد احسن احسنؔ اور غلام مصطفی خاں یک رنگ ؔ شامل ہیں۔ ان شعرا کا نمونۂ کلام بھی درج ہے۔
دوسرے دور میں شاہ حاتمؔ، سراج الدین علی خاں آرزوؔ اور اشرف علی خاں مغلؔ کو شامل کیا گیا ہے۔
تیسرے دور کو اس کتاب میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس باب میں مظہر جانِ جاناںؔ، میر عبدالحئی تاباںؔ، مرزا محمد رفیع سودا ؔ، میر ضاحکؔ، خواجہ میر دردؔ اس دور کی خصوصیت یوں لکھتے ہیں:
’’رات ہوگئی مگر جلسہ جما ہوا ہے۔ اور وہ سماں بندھ رہا ہے کہ دل سے صدا آتی ہے ؎
یا الٰہی تا قیامت بر نیاید آفتاب
اس مشاعرے کے شعرا کا کچھ شمار نہیں۔ خدا جانے یہ کتنے ہیں اور آسمان پر تارے کتنے ہیں۔ سننے والے ایسے مشتاق کہ شمع پر شمع پانی ہوتی ہے۔ مگر ان کے شوق کا شعلہ دھیما نہیں ہوتا، یہی آواز چلی آتی ہے ؎
ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تک بس چل سکے ساغر چلے
آزاد بھولتے ہو! دلوں کی نبض کس نے پائی ہے! جانتے نہیں کہ دفعتاً اکتا جاتے ہیں۔ پھر ایسے گھبرا جاتے ہیں کہ ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں۔ بس اب باقی داستاں فردا شب لو صبح ہوگئی۔ طول کلام ملتوی کرو ؎
عزیز و مست سخن ہو یا کہ سوتے ہو
اٹھو اٹھو کہ بس اب سر پہ آفتاب آیا
(آبِ حیات ۔ص ۸۴)
ظاہر ہے کہ یہ ایک بہترین نثر کا نمونہ ہے اورا س میں ایک خوبصورت تصویر کشی کی گئی ہے۔ ایسے نمونے اس کتاب میں جا بجا ملتے ہیں۔ اس کے بعد چوتھا دور ہے ،جس میں شیخ قلند بخش جرأتؔ ،میر حسنؔ، سید انشاء اللہ خاں انشاؔ اور شیخ غلام ہمدانی مصحفیؔ شامل ہیں۔
پانچویں دور کی ابتدا آزاد یوں کرتے ہیں:
’’دیکھنا وہ لالٹینیں جگمگانے لگیں۔ اٹھو! اٹھو! استقبال کرکے لاؤ۔ اس مشاعرے میں وہ بزرگ آتے ہیں جن کے دیدار ہماری آنکھوں کا سرمہ ہوئے ۔۔۔میں دوقسم کے باکمال نظر آئیں گے۔ ایک وہ کہ جنھوں نے اپنے بزرگوں کی پیرو کی دین و آئین سمجھا ۔یہ ان باغوں میں پھریں گے ،پرانی شاخیں زرد پتے کاٹیں چھاٹیں گے اور نئے رنگ ،ڈھنگ کے گلدستے بنا کر گلدانوں سے طاق ایوان سجائیں گے۔
دوسرے وہ عالی دماغ جو فکر کے دخان سے ایجاد کی ہوائیں اڑائیں گے اور برج آتش باری کی طرح اس سے رتبۂ عالی پائیں گے۔ انھوں نے اس ہوا سے بڑے بڑے کام لئے مگریہ غضب کیا کہ گردو پیش جو وسعت نے انتہا پڑی تھی اس میں سے کسی جانب نہ گئے۔ بالا خانوں میں سے بالا بالا اڑ گئے۔ چنانچہ تم دیکھو گے کہ بعض بلند پرواز ایسے اوج پر جائیں گے جہاں آفتاب تارا ہو جائے گا۔ اور بعض ایسے اڑیں گے کہ اڑ ہی جائیں گے۔ ‘‘
(آبِ حیات۔ ص ۱۰۳)
اس دور میں شیخ امام بخش ناسخؔ، میر مستحسن خلیقؔ، خواجہ حیدر علی آتشؔ، شاہ نصیرؔ، مومن خاں مومنؔ، شیخ ابراہیم ذوقؔ، اسد اللہ خاں غالب، مرزا دبیرؔ اور میر انیسؔ شامل ہیں۔
آب حیات کاتقریبا ہر مقولہ بے حد مختلف حوالوں سے مشہور ہوا ۔اس پر ہمارے ناقدین اور محققین نے بھی بڑی تفصیل سے گفتگو کی ہے۔اس لئے میں اشارتا بات کرکے آگے بڑھنا چاہوں گی۔ مثلا مندرجہ بالا اقتباس ہماری اردو دنیا میںاس لحاظ سے بار بار دوہرایا گیا کہ اس میں ایک طنز غالب پر بھی کیا گیاہے کہ ’’بعض بلند پرواز ایسے اوج پر جائیں گے جہاں آفتاب تارا ہو جائے گا۔ اور بعض ایسے اڑیں گے کہ اڑ ہی جائیں گے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ
اس کے بعد اختتامیہ ہے جس میں یوں رقمطراز ہیں:
’’حیاتِ دوام کا خدائی چشمہ جاری ہے۔ جس کے کنارے پر عہد بہ عہد پانچویں جلسے جمے ہوئے ہیں۔ آبِ حیات کا دور چل رہا ہے۔ چشمے کا پانی زمانے کے گزرنے کی تصویر کھینچتا ہے اور موجیں ظاہری زندگی کو الوداع کہتی چلی جاتی ہیں۔ ‘‘
(آبِ حیات ۔ص ۱۵۶)
آبِ حیات پر اعتراضات
آبِ حیات کی اشاعتِ اول سے لے کر بعد تک اس پر اعتراضات کا سلسلہ جاری رہا۔ پہلے ایڈیشن میں مومنؔ کا حال درج نہیں تھا۔ اس پر اعتراضات کے نتیجے میں دوسرے ایڈیشن مومنؔ کا اضافہ کیا گیا۔
اس کے علاوہ چند اعتراضات جو کیے گئے وہ درج ذیل ہیں:
بہت سے اہم شاعروں کو نظر انداز کردیا گیاہے۔
اس میں کسی غیر مسلم شاعر کا ذکر نہیں ہے۔ اور نہ ہی کسی شاعرہ کا ذکر ہے۔
عظیم آباد اور کلکتہ وغیرہ کے دبستانوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
ولی کو اردو کا پہلا شاعر قرار دیا گیا ہے جبکہ ان سے بہت پہلے قلی قطب شاہ اردو میں بڑا سرمایہ جمع کر چکے تھے۔
نظام الدین ممنونؔ کا حال بھی شامل نہیں کیا گیا۔حالیؔ کے اعتراض کے باوجود آزاد نے بعد کے ایڈیشن میں اضافہ نہیں کیا۔
قائم کا ذکر آزاد کے حاشیہ میں کیا ہے جبکہ وہ اصل متن میں جگہ پانے کے حق دار تھے۔
تضادات
اسی طرح اس میں بہت تضادات ہیں جس کی نشاندہی محققین نے کی ہے مثلا:
میر سوز اور میر تقی میر دونوں کو اردو کا سعدی قرار دیتے ہیں۔
امیر خسرؔو اور ولی ؔ دونوں کو اردو غزل کا موجد کہتے ہیں۔
قاضی عبدالودود نے اپنی کتاب ’آزد بحیثیت محقق‘ اور حافظ محمود خاں شیرانی نے مقالاتِ شیرانی میں آزاد کی ان غلطیوں کی بہت تفصیل سے نشاندہی کی ہے۔
ابرار عبدالسلام نے اپنے مرتب کردہ آبِ حیات کے مقدمے میں لکھا ہے کہ دوسرے دور کی خصوصیت بھی وہی ہے جو پہلے دور کی ہے۔
ان کے یہاں ماضی پسندی بہت پائی جاتی ہے۔ ماضی کی خامیوں کو بھی خوبیوں میں تبدیل کرکے بیان کرتے ہیں،اور کبھی اپنے ماضی کو زندہ کرنے کی کوشش میں اپنی ساری صلاحیتیں صرف کردیتے ہیں۔
’’جس مرنے پر اُن (اہلِ کمال) کے اہل و عیال روئے وہ مرنا نہ تھا۔ مرنا حقیقت میں ان باتوں کا مٹنا ہے جس سے ان کے کمال مٹ جائیں گے، اور یہ مرنا حقیقت میں سخت غم ناک حادثہ ہے۔‘‘
(آبِ حیات مرتبہ ابرار عبدالسلام ۔ص ۲)
ہمارے محققین کا خیال یہ بھی ہے کہ:
آزاد نے میر کی شخصیت کو بہت ناگوار بنا دیا ہے۔ ان کی خود پسندی اور خود بینی ،بدمزاجی کو اسی قدر بڑھا کر پیش کیا ہے کہ ان کی شخصیت بدنما ہو گئی ہے جبکہ میر کی شخصیت اس سے قدرِ مختلف نظر آتی ہے۔
حالانکہ ان خامیوں کے ساتھ ساتھ اس میں بعض ایسی ناقابل فراموش خوبیاں ہیں کہ جو ان خامیوں پر غالب آجاتی ہیں۔ ان میں سب سے پہلی خوبی ان کی جاندار نثر ہے۔ ان کا طرز بیان بالکل منفرد ہے۔ ان کی انشا پردازی ان کی تمام خامیوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔
آزاد کے یہاں کامیاب مرقع ایسے ہیں کہ جن کو کلیم الدین احمد جنھوں نے ان کو تنقید کانشانہ بنایا اور کہہ دیا کہ ان میں تنقید کا مادہ بالکل نہیں ہے لیکن پھر بھی انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ :
’’آبِ حیات میں نئے نئے قسم کے مرقع ملتے ہیں، جن سے اس کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔ ان حسین بوقلموں تصویروں نے اس کو اہم بنا دیا ہے۔ انشا اور عظیم بیگ کا واقعہ، انشاء اور مصحفی کے معرکے، ناسخ اور آتش کی نوک جھونک، جرأت اور کربلا ھانۂ کی نقلیں غرض ہر قسم کی تصویریں ہیں۔ عموماً ان موقعوں میں ظرافت اورطنز کا مادہ جزو اعظم کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے آبِ حیات گویا زعفران زاد بن گئی ہے۔ ‘‘
(اردو تنقید پر ایک نظر ۔ص ۵۲۔۵۱)
اسی طرح آبِ حیات کی ڈراما نگاری کا ذکر کرتے ہوئے کلیم الدین احمد لکھتے ہیں:
’’آزاد ڈراما نگاری کی قوت رکھتے تھے۔ اس لیے وہ کسی سین، انسانی دنیا کے کسی منظر کو صفائی اورکامیابی کے ساتھ پیش کرسکتے تھے۔ یہ تصویریں مردہ نہیں زندہ ہیں، جیتی جاگتی ،چلتی پھرتی، بولتی چالتی تصویریں ہیں۔ مبالغہ یہاں بھی ہے اور ان تصویروں کے حسن میں اضافہ کرتا ہے۔ ‘‘
(اردو تنقید پر ایک نظر۔ ص ۵۳)
اس تفصیلی جائزے کے بعد کہیں نہ کہیں اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ آبِ حیات ایک ایسی کتاب ہے، جس میں بہت سی خامیاں ہونے کے باوجود بھی وہ آج تک ایک لازوال اور حسن کی حامل ہے۔ اس کے مطالعہ سے آزاد کی علمیت اور اسلوب کا اندازہ بخوبی ہوتاہے اور جن خامیوں کے بارے میں بات کی جاتی ہے وہ خوبیوں کے سامنے ہیچ معلوم ہوتی ہیں کیونکہ اگر ہم اس وقت کا ماحول اور پس منظر کونظر میں رکھ کر مطالعہ کرتے ہیں ،تو اس کتاب میں جو ادبی مسائل ،تاریخی حقائق ،لسانیاتی اصول اور فکری اشارات ہیں ان کو فراموش کرنا ناممکن ہے۔ نازک جذبات ،لطیف احساسات اور بیانیہ اسلوب کے ساتھ یہ آزاد کا ایک ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے۔ اگرچہ اس میں موجود تنقید سطحی ہو یا تنقید سے عاری ہو لیکن ہمیں یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ یہ تنقید کے اولین نقوش ہیں اور نقوش بے عیب نہیں ہوتے۔مجھے ابولکلام قاسمی صاحب کی وہ بات یاد آرہی ہے کہ:
’’آزاد کی عملی تنقید بعض تجزیوں اور موازنوں کی بنیاد پر اردو تنقید کی آگے کی منزلوں کا سراغ دیتے ہیں۔ وہ خود کو تذکروں کی محض چند گنی چنی اصطلاحوں میں اسیر نہیں رکھتے۔ ایک شاعر کو دوسرے سے الگ کرنے کی خاطر اس کی انفرادی پہنچان کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ تذکروں کی نام نہاد تنقیدی رایوں پر اضافے کا انداز اپناتے ہیں او راپنے زمانے کی سیاق و سباق میں الطاف حسین حالی کے مربوط اور منضبط تنقیدی تصورات کی تمہید ضرور بن جاتے ہیں۔ ‘‘
(کثرت تعبیر ۔ص ۲۰۹)
غرضیکہ اگر محمد حسین آزاد آب حیات نہ لکھتے تو ہماری تنقید ایسی ہر گز نہ ہوتی ،جیسی کہ ابھی ہے۔ اگرچہ ہم اس کتاب سے بے شمار اختلاف رکھتے ہوں کہ آزاد نے واقعات میں نمک ،مرچ لگاکرچٹخارہ لے لے کر بیان کیا ہے، لیکن پھر بھی اتنا عرصہ گزرجانے کے بعد بھی ہم ان کی باتوں کو مکمل طور پررد کرنے کے لئے کوئی ٹھوس ثبوت اکٹھا کرنے میں ناکام رہ جاتے ہیں۔اس زمانے کے کسی نثر پارہ میں اس طرح کی تنقیدی صلاحیتیں تو خیر ،ایسے بہترین نثری نمونہ کی کھو ج بھی بے سود ثابت ہوتی ہے،لہذا اس مطالعے کی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آبِ حیات محمد حسین آزاد کا تحریر کردہ ’’ غیر معمولی ‘‘ تذکرہ ہے۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں