ڈاکٹر محمد شاہنواز عالم
اسسٹنٹ پروفیسر
شعبہ اردو، ملت کالج – دربھنگہ – بہار
عصمت چغتائی پہلی خاتون افسانہ نویس ہیں جنہوں نے عورتوں کے جنسی مسائل کو اپنا موضوع بنایا اور سماج کی ان آلودگیوں کو ظاہر کیا جو عام انسانوں کی نظروں سے اوجھل تھیں۔ حتیٰ کہ عورتوں کے ہم جنسی میلان کو بعض افسانوں میں پیش کر کے ایک ہنگامہ مچا دیا۔ حالانکہ عصمت چغتائی نے اس نوع کے افسانوں میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ پردے کے اندر ہونے والے بے شمار جرائم منظر عام پر آ سکیں اور پڑھنے والے سبق حاصل کر کے ایک صحت مند زندگی گزارنے کی طرف راغب ہوں لیکن جنس کے موضوعات پر لکھے گئے افسانوں نے انہیں بدنام کر کے رکھ دیا۔ البتہ افسانہ کے فن اور زبان و بیان کی وجہ سے انہیں نیک نامی بھی نصیب ہوئی۔ بقول ڈاکٹر وصیہ عرفانہ۔:
’’عصمت چغتائی اپنے موضوعات کی ندرت، حقیقت کے بیان میں غیر معمولی جسارت اور بیانیہ پر مضبوط گرفت کی وجہ سے راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو اور کرشن چندر جیسے عہد ساز افسانہ نگاروں کی صف میں شامل ہو کر اپنے عہد میں اردو افسانے کا چوتھا ستون قرار پائیں۔‘‘
(عصمت شناسی افسانوں کے تناظر میں – ڈاکٹر وصیہ عرفانہ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی،2021، صفحہ – 8،7)
ایسا نہیں ہے کہ عصمت چغتائی نے صرف جنسی موضوعات پر ہی افسانے لکھے ہیں بلکہ ان کے افسانوی مجموعے کلیاں، چوٹیں، دو ہاتھ اور چھوئی موئی کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرتی زندگی کے اہم مسائل مثلاً بچوں کے مسائل، کثرت اولاد، تعداد ازدواج، جہیز، بیوگی، بانجھ پن، ذات پات، فرقہ پرستی، فسادات اور ہندو مسلم اتحاد کو بھی اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ ان موضوعات پر لکھے گئے متعدد افسانوں میں عصمت چغتائی نے معاشرے میں رائج فرسودہ رسم و رواج اور اندھی تقلید کا قلع قمع کر کے دبے ہوئے لوگوں کے اندر سیاسی، سماجی، تعلیمی اور مذہبی آزادی کے لئے صور پھونکنے کا کام کیا اور یہ ترغیب دینے کی کوشش کی کہ انسانیت اور مساوات ہی معاشرتی زندگی کا اصل جوہر ہیں جس میں سبھی انسان ایک ساتھ رہتے ہیں، اس میں چھوٹے بڑے کی کوئی تفریق نہیں، اس میں کوئی ذات بڑی نہیں اور کوئی کسی کے مذہب کو برا نہیں کہتا۔ گویا عصمت چغتائی کے نزدیک سب سے بڑا مذہب انسانیت اور انسان دوستی ہے۔ اسی نقطہ نظر کو سمجھانے کے لئے افسانہ ‘جڑیں’ کی تخلیق کی اور اپنے سیکولر خیالات و افکار کو واضح کرتے ہوئے ایک ایسے سماج کی تخلیق کا خاکہ پیش کیا جس میں مذہب و ملت اور ذات پات کی تفریق کی بجائے انسان اپنے انسان دوستی اور رواداری کے بل بوتے پر زندگی کو خوشگوار اور پر امن بنانے کا متمنی ہو۔
اسے ایک عجیب اتفاق ہی کہا جائے گا کہ جس ملک کو آزاد کرانے کے لئے ہندوؤں اور مسلمانوں نے اپنے تمام اختلافات کو بھلا کر اور مشترکہ طور پر متحد ہو کر انگریزوں سے آزادی کی جنگ لڑی لیکن جب انہیں آزادی ملی تو دونوں مذہبی جنون کا شکار ہو گئے۔ حتیٰ کہ اسی بنا پر ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور برسوں سے تعمیر ہوتی آئی ہندو مسلم تہذیب کو گہن لگ گیا۔ اس بٹوارے کے تحت لاکھوں مسلمان پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے تاہم ان میں کچھ ایسے خاندان بھی تھے جنہوں نے پاکستان جانا گوارا نہ کیا کیونکہ انہیں اپنے وطن کی وہی مٹی عزیز تھی جہاں وہ پلے بڑھے تھے اور کیا ہندو کیا مسلمان سبھی ایک ساتھ مل کر زندگی کی خوشیوں اور اس کے غم میں شریک تھے۔ افسانہ ‘جڑیں’ میں بوڑھی اماں کا کردار اسی نقطہ نظر کو واضح کرتا ہے۔ ساتھ ہی روپ چند کا کردار ہمارے ذہنوں میں اس حقیقت کو روشن کرتا ہے کہ بٹوارے کے بعد بھی بہت سے ہندو اور مسلمان ایسے تھے جو باہمی پیار و محبت کے جذبات کو زندہ رکھنے کے لئے کوشاں تھے۔ دراصل یہ وہ لوگ تھے جن کا ذہن فرقہ پرست نہ تھا بلکہ یہ سب ایک سیکولر ذہن رکھتے تھے اور جنہیں مشترکہ تہذیب کو ترک کرنا گوارا نہ تھا۔
افسانہ ‘جڑیں’ میں ایک ایسے مسلم خاندان کی کہانی بیان کی گئی ہے جو تقسیم کے بعد اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان کے لئے روانہ ہوا چاہتا ہے۔ تاہم اس واقعے کے ساتھ ہی عصمت چغتائی نے ڈاکٹر روپ چند اور بوڈھی اماں کے خاندان کے درمیان پائی جانے والی محبت، اخلاص اور یگانگت کو بڑے موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ہرچند کہ افسانے میں بوڈھی اماں اور ڈاکٹر روپ چند کا تعلق دو الگ الگ مذہب سے ہے پھر بھی ان کے مابین کسی قسم کا بعد نہیں ہےاور دونوں ہی خاندان کے افراد ایک دوسرے کے جذبات و خیالات کا احترام بڑے پر خلوص جذبے کے ساتھ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر روپ چند ان رشتوں کو نازک ترین حالات میں بھی مرجھانے نہیں دیتے۔ کیسے اور کیونکر اس کا ذکر آگے آگے آئے گا لیکن اس سے قبل افسانے کا وہ حصہ توجہ طلب ہے جہاں بوڈھی اماں پاکستان جانے سے صاف انکار کر دیتی ہیں، کیونکہ وہ پاکستان کو اپنا وطن ماننے کو قطعی روادار نہیں ہیں۔ دراصل عصمت چغتائی نے بوڈھی اماں کے کردار کے توسط سے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ملک اور وطن کی بنیاد مذہب پر استوار نہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا وہ کہتی ہیں –
"میرے ٹرنک کو ہاتھ نہ لگانا، اماں کی زبان آخر کو کھلی اور سب ہکا بکا رہ گئے۔
کیا آپ نہیں جائیں گی، بڑے بھیا ترشی سے بولے۔
نوج موئی میں سندھنوں میں مرنے جاؤں۔ اللہ ماریاں۔ برکے پاجامے پھڑکاتی پھریں ہیں ”
(افسانہ جڑیں – افسانوی مجموعہ – چھوئی موئی، کتب پبلشرز لمیٹڈ بمبئ – 1952 ، صفحہ- 162)
اور تمام حجت کے بعد بھی بوڈھی اماں پاکستان جانے کے لئے تیار نہیں ہوتی ہیں اور اپنا آخری فیصلہ سناتی ہیں کہ” تم لوگ جاؤ، اب میں کہاں جاؤں گی۔ ” بوڈھی اماں کے اس دو ٹوک جواب کے بعد گھر کے تمام افراد چلے جاتے ہیں اور وہ گھر میں تنہا رہ جاتی ہیں لیکن بچوں کی محبت انہیں ستانے لگی اور سینکڑوں وسوسے اور اندیشے ان کے اندر سر اٹھانے لگے۔ اس بات کے لئے نہیں کہ سبھی انہیں اس حال میں چھوڑ کر چلے گئے ہیں تو ان کا کیا ہوگا بلکہ وہ یہ سوچتی ہیں کہ ملک کی فضا ان دنوں بہتر نہیں ہےمعلوم نہیں بچوں پر کیا گذرے۔ اور یہی سوچتے سوچتے بوڈھی اماں بے ہوش ہو گئیں اور پھر جب ان کی آنکھ کھلی تو وہ یہ دیکھتی ہیں کہ گھر کے تمام افراد موجود ہیں۔
دراصل ڈاکٹر روپ چند کو اس بات کا بے حد افسوس ہے کہ ان کے برسوں کے پڑوسی آج بے سروسامانی کی حالت میں ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ اپنے پڑوسیوں کی محبت اور ان کے اخلاق کو یاد کر کے ان کا دل بے چین ہو جاتا ہے اور اسٹیشن جا کر پڑوسی کے قافلے کو پکڑ لاتے ہیں۔ پھر بوڈھی اماں کو ہوش میں لایا جاتا ہے۔ ان کے نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے ڈاکٹر روپ چند کہتے ہیں۔:
"ارے بھابی مجھے ویسے ہی بلا لیا کرو چلا آؤں گا۔ یہ ڈھونگ کاہے کو رچاتی ہو… اور بھابھی آج تو فیس دلوا دو، دیکھو تمھارے نالائق لڑکوں کو لونی جنکشن سے پکڑ کر لایا ہوں۔ بھاگے جاتے تھے بدمعاش کہیں کے۔ پولس سپرنٹنڈنٹ کا بھی اعتبار نہیں کرتے تھے۔”
"پھر بوڈھے ہونٹ میں کونپلیں پھوٹ نکلیں وہ اٹھ کر بیٹھ گئیں۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی پھر دو گرم موتی لڑھک کر روپ چند کے جھڑپوں دار ہاتھوں پر گر پڑے "
(افسانہ جڑیں – افسانوی مجموعہ چھوئی موئی، کتب پبلشرز لمیٹڈ بمبئی 1952 ، صفحہ 169، 170 )
افسانے میں ڈاکٹر روپ چند کا بوڈھی اماں کے بچے کو پکڑ کر واپس لانا محض واقعے کے طور پر بیان نہیں ہوا ہے۔ بلکہ اس کے پس پردہ ہندستان کی مشترکہ تہذیب کے ایک اہم جز کو الگ نہ ہونے دینے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جس کی بنیاد میں ہندستان کی وہ تہذیبی وراثت ہےجو کسی مخصوص مذہب یا عقیدے سے قطعی عبارت نہیں ہے بلکہ اس کا خمیر مختلف مذاہب اور عقائد اور نظریات سے تیار ہوا ہے۔ لہٰذا یہ تہذیب اپنی حیثیت تبھی برقرار رکھ سکتی ہے جبکہ اسے سابقہ روایتوں مثلاً رواداری، روشن خیالی اور وسیع المشربی سے منحرف نہ کیا جائے۔ کیونکہ یہی خصوصیات اس تہذیب کی اصل پہچان ہے۔ افسانے میں بوڈھی اماں اور ڈاکٹر روپ چند کے خاندان اسی مشترکہ تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہی وجہ تو ہے کہ جہاں بوڈھی اماں اپنے گھر میں تنہا رہ جانا پسند کرتی ہیں لیکن بچوں کے ساتھ پاکستان جانے پر رضا مند نہیں ہوتیں، وہیں ڈاکٹر روپ چند ان کے بچوں کو پاکستان نہیں جانے دیتے۔ افسانے کا آخری جملہ کہ "پھر بوڈھے ہونٹ میں کونپلیں پھوٹ نکلیں” دراصل اس تہذیب کے از سر نو زندہ ہونے کی علامت ہے۔ گویا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تمام حوادث کے باوجود بھی یہ مشترکہ تہذیب نہیں مٹ سکتی کیونکہ اس کی بنیاد صدیوں کے باہمی اشتراک و اتحاد پر رکھی ہوئی ہے۔ یہ ملک ہر مذہب کے ماننے والوں کا مسکن رہا ہے اور اس کی مٹی میں سب کے لئے یکساں پیار ہے اور جس کی سرشت میں رواداری، وسیع القلبی جیسے سیکولر قدریں داخل ہیں۔
دراصل افسانہ ‘جڑیں’ میں عصمت چغتائی نے دو خاندانوں کی باہمی رفاقت کو فسادات کے پس منظر میں پیش کر کے سیکولر نظریے کو معنویت عطا کی ہے اور ایک خوش آئند پہلو کا اضافہ کیا ہے کہ انسانی قدر و قیمت کا تعین انسانی درد مندی کے احساس سے ہی کیا جانا ممکن ہے۔ اور یہ احساس ہندستانی کلچر میں صدیوں سے موجود ہے۔ اس افسانے میں عصمت چغتائی نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ہماری قومی سالمیت اور یکجہتی کو برقرار رکھنا ہے تو ہندستان کی مشترکہ کلچر کو فرقہ واریت اور مذہبی تعصب سے بچانے کی ضرورت ہے۔ عصمت چغتائی یہ مانتی تھیں کہ قومی ورثہ کے ساتھ مذہب کا کوئی رشتہ ناطہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا وہ یہ کہتی ہیں کہ –
"میں مسلمان ہوں۔ بت پرستی شرک ہے۔ مگر دیو مالا وطن کا ورثہ ہے۔ اس میں صدیوں کا کلچر سمویا ہوا ہے۔ ایمان علیحدہ ہے۔ وطن کی تہذیب علیحدہ ہے۔ اس میں میرا برابر کا حصہ ہے۔ جیسے اس کی مٹی، دھوپ اور پانی میں میرا حصہ ہے۔ میں ہولی پر رنگ کھیلوں، دیوالی پر دیے جلاؤں تو کیا میرا ایمان متزلزل ہو جائے گا۔ میرا یقین اور شعور اتنا بودا ہے، اتنا ادھورا ہے کہ ریزہ ریزہ ہو جائے گا۔ "
(عصمت چغتائی – مضمون، غبار کارواں، ماہنامہ آجکل، دہلی، نومبر 1970 صفحہ – 14)
گویا عصمت چغتائی کھلے طور پر اعتراف کرتی ہیں کہ ہمارا مشترکہ کلچر ہمارے ملک کی روح ہے جس کی تشکیل و تعمیر ہمارے آباواجداد نے ہزاروں سال کی ریاضت کے بعد کی ہے۔ اس کلچر پر ہر ایک کو فخر ہونا چاہیے کہ اس میں سب کی حصہ داری ہے۔ اور اس مشترکہ کلچر کو اپنانے میں کسی کا مذہب یا ایمان نہیں جاتا۔افسانے میں روپ چند اور اماں کا کردار اسی حقیقت کی غماز ہیں۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں