اکرم نقاش
حرف……ایک
نہ جانے کتنی صدیوں
کتنے قرنوں سے
ٹیلوں پر جمی برف
یک لخت
ریت کے تودوں کی مانند
اپنی تہوں سے سرکنے لگی
سورج اپنی تپش اور آمادگی کے ساتھ
پوری قوت اور
شدت سے
برف کے انجماد پر
موثر ہو رہا تھا
فزوں تر ہو رہا تھا
ٹیلوں پر جمی برف کے ماتھے پر
شعلگی اور پگھلنے کے آثار
قطروں کی شکل میں
نمودار ہونے لگے تھے
مدتوں سے جمی
یخ فضا پر
سورج کے اجارہ نے غلبہ پایا ہی تھا
کہ برف کے موسم
اپنی پچھلی حالت میں پہنچنے
پھر سے جم جانے میں
کوشاں لگ رہے تھے
سرگرداں تھے
اپنی اصلی کیفیت میں
پھر سے آ جانے کو جم جانے کو
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
سورج نے بھی شعلگی کو اپنی
بانہوں میں سمیٹے
بادلوں کی طرح
اڑنے اور بہہ جانے کی خاطر
پر سمیٹے
اپنی پچھلی سمت پر تھا گامزن
یخ زدہ ٹیلے
یخ ہواوں کے حوالے
کر کے اپنا انجماد
جم گئے ہیں
ڈھہ گئے ہیں۔
حرف……دو
گھنگھور ابر ٹکڑے
بوندوں میں ڈھل رہے تھے
پیراہنِ بدن کو
ملبوس ِجسم و جاں کو
سیراب کر رہے تھے
مہتاب کر رہے تھے
مدغم تھے ابر و آتش
موجیں تھیں تند و برہم
ساحل بھی کٹ رہے تھے
ایسا تھا کچھ تموج
دو جسم ایک جاں تھے
لہروں کے رتھ پہ رقصاں
آواز دی کسی نے
آواز تھی وہ کیسی
آواز تھی وہ کس کی
لہروں کی یورشیں بھی
اور بجلیوں کے کوندے
طوفان بادلوں کے
عنقاہوئے چلے تھے
سرمستیوں کی آندھی
اک سیل ِبے پنہ کو
سب گاتے موسموں کو
ہر نغمگی کو اس کی
تنہا کیے چلی تھی
اک دشتِ بے صدامیں
بے ساز و بے نوا میں
صحرائے بے کراں میں
روح و بدن ہیں حیراں
کس سمت اب بڑھے گی
جذبوں کی تشنہ کامی
کس سمت جا لگے گی
بے سمت یہ کہانی۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں