مانو کول
ہندی سے ترجمہ: رضوان الدین فاروقی
میں کھانا بنانے کی تیاری کرنے لگا۔ پیچھے سے اماں ضد کرنے لگیں۔ ’نہیں، کھانا میں بناؤں گی۔‘ اس نوک جھونک میں جیت اماں کی ہی ہونی تھی مگر میں ضد کرکے ٹماٹر، پیاز، ہری مرچ کاٹنے لگا۔
’آپ اتنی دور سے سفر کرکے آئی ہیں۔ کھانا آپ ہی بنانا، میں بس تیاری کردیتا ہوں۔‘
اماں چپ چاپ بالکنی میں جا کر کھڑی ہوگئیں۔ انھیں مجھے اس طرح دیکھنے کی عادت نہیں ہے۔ کئی سال قبل جب وہ مجھ سے ملنے آتی تھیں تو انو ساتھ ہوتی تھی۔ تب میں شادی شدہ تھا۔ اماں انو کو بہت پسند کرتی تھیں۔ شاید اتنے سال اماں اس لیے مجھ سے ملنے نہیں آئیں۔
’گھر بہت چھوٹا ہے، مگر خوبصورت ہے۔‘ اماں نے کہا۔ میں خاموش رہا۔ سب سبزیاں کاٹ لینے کے بعد میں بھی بالکنی میں جا کر کھڑا ہوگیا۔ پیچھے جنگل تھا۔ ہریالی نظر آتی تھی۔ اماں کچھ تلاش رہی تھیں۔ ان کی نگاہیں کہیں دور کسی ہرے کونے سے جرح کررہی تھیں۔ میں بغل میں آکر کھڑا ہوگیا، اس کی انھیں خبر بھی نہ ہوئی۔ اماں قد میں بہت چھوٹی تھیں، میرے کندے کے بھی نیچے کہیں ان کا سر آتا تھا۔ میرا بھائی اور میں مذاق میں کہا کرتے تھے کہ اچھا ہوا ہماری ہائٹ اماں پر نہیں گئی، ورنہ ہم بونسائی ہیومن لگتے۔ اماں کی آنکھوں کے نیچے کی سیاہی بہت بڑھ گئی تھی۔ وہ بہت بوڑھی لگ رہی تھیں۔ کیا میں روک سکتا ہوں کچھ؟ ان کا بوڑھا ہونا نہ سہی مگر ان کے آنکھوں کے نیچے کی سیاہی؟ پتہ نہیں کتنی ساری چیزیں ہیں جن کا ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ بس ایک خاموش تماشائی بن کر دیکھ سکتے ہیں سب ہوتا ہوا… سب گزرتا ہوا، دھیرے دھیرے۔ میری خواہش ہورہی تھی کہ اماں کے گالوں پر ہاتھ پھیر دوں۔ ان کی لٹکتی ہوئی جلد کو سہلا دوں۔ کہہ دوں کہ مجھ سے نہیں ہوسکا اماں، کچھ بھی نہیں۔ مگر میرے اس عمل سے وہ رو دیتیں اور میں یہ ہرگز نہیں چاہتا تھا۔ پچھلے کچھ سالوں سےمیں نے ماں کے ساتھ اپنے سارے مکالموں میں ’میں خوش ہوں‘ کی چاشنی گھولی ہے۔ انھیں میرے اکیلے پن، خالی پن کی بھنک بھی نہیں لگنے دی، جس کی اب مجھے عادت ہوگئی ہے۔ اب لگتا ہے کہ اس خالی پن، اکیلے پن کے بغیر میں جی نہیں سکتا ۔
’اس بالکنی میں کچھ گملے کیوں نہیں رکھ لیتے؟‘ اس بیچ اماں کی آواز کہاں سے آئی ،مجھے پتہ نہیں چلا۔ ان کے بوڑھے جھریوں والے رخسار بس ہلکے سے ہلے تھے۔ وہ اب بھی مجھے نہیں دیکھ رہی تھیں۔
’خواہش تو میری بھی ہے مگر یہ کرائے کا گھر ہے، پتہ نہیں کب بدلنا پڑے اور یوں بھی میرا بھروسہ کہاں ہے! کبھی زیادہ دن کے لیے کہیں چلا گیا تو…‘
اماں میرے آدھے جملے میں اندر چلی گئیں۔ میرے لفظ ٹوٹے، جھڑنے لگے، گر پڑے اور میں خاموش ہوگیا۔ اماں نے خود کو کھانا بنانے میں مصروف کرلیا۔
میرے اور اماں کے بیچ بات چیت بہت کم ہوتی تھی۔ پہلے ایسا نہیں تھا، پہلے ہم دونوں کے بیچ ٹھیک سے بات چیت ہوجاتی تھی اور موضوع بھی ایک ہی تھا ہمارے پاس: انو۔ مگر اب انھیں لگتا ہے کہ میں انو کی بات کرکے اسے غم زدہ کردوں گی۔ اگر غلطی سے میں انو کی بات نکال لیتا تو وہ کچھ ہی دیر میں موضوع بدل دیتیں۔ ان گزرے سالوں میں اماں خوب ساری باتوں کا رٹا رٹایا سا پلندہ لیےمجھ سے فون پر بات کرتی تھیں۔ پھر بیچ میں باتوں کے تار ٹوٹ جاتے یا پلندہ خالی ہوجاتا تو ہم دونوں خاموش ہوجاتے۔ بات ختم نہیں ہوئی ہے میں جانتا تھا، وہ کچھ اور پوچھنا چاہتی ہیں، کہنا چاہتی ہیں۔ کچھ دیر میں ان کی سانسیں سنتا اور وہ دھیرے سے بنا کچھ کہے فون کاٹ دیتیں۔ دھیرے دھیرے ہمارا فون پر بات کرنا بند ہوگیا۔ میں کبھی فون کرتا تو وہ جلدی جلدی بات کرتیں جیسے بہت مصروف ہوں۔ اس بیچ وہ مجھے خط لکھنے لگی تھیں۔ شروع میں جب خط ملتے تو میں ڈر جاتا۔ پتہ نہیں کیا لکھا ہوگا ان میں۔ مگر عجیب بات تھی کہ وہ سارے خطوط میرے بچپن کے قصوں سے بھرے ہوئے تھے۔ کچھ قصے اتنے چھوٹے کہ ان کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا تھا۔ ان خطوں کے جواب میں نے کبھی بھی نہیں دیے۔ میں نے بہت کوشش کی مگر جب بھی قلم اٹھاتا تو مجھے سب کچھ اتنا بناوٹی لگنے لگتا کہ میں قلم واپس رکھ دیتا۔ میں زیادہ تر خطوں میں بھٹک جاتا یا کبھی کبھی کچھ اتنی سنجیدہ بات لکھ دیتا تھا کہ اسے سنبھالنے میں ہی پورا کا پورا خط بھر جاتا۔ وہ خطوں میں میرے بچپن سے آگے نہیں بڑھتی تھیں۔ بچپن کے بعد جوانی تھی جس میں، میں تنہا نہیں تھا، وہاں انو میرے ساتھ تھی۔ اس لیے وہ خط کبھی لکھے نہیں گئے۔
کھانا کھاتے وقت ہم دونوں خاموش تھے۔ اماں نے ٹماٹر کی چٹنی بنائی تھی جو مجھے بہت پسند تھی۔ جب بھی اماں کھانا کھاتی ہیں تو ان کے منھ سے کھانا چبانے کی آواز آتی ہے؛ کرچ کرچ۔ مجھے شروع سے یہ آواز بہت پسند تھی۔ میں نے کئی بار اماں کی طرح کھانے کی کوشش کی مگر وہ آواز میرے پاس سے کبھی نہیں آئی۔
’کیا ہوا، مسکرا کیوں رہے ہو؟‘
وہ مجھے دیکھ رہی تھیں، مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔ میں اس آواز کے بارے میں ان سے کہنا چاہتا تھا مگر یہ میں پہلے بھی ان سے کہہ چکا ہوں، اس لیے خاموش رہا۔
کھانا کھانے کے بعد میرے دوست رشبھ کا فون آیا۔ میں اس کے ساتھ کافی پینے چلا گیا۔ رشبھ جانتا تھا اماں آرہی ہیں۔ ہمارے دوستوں کے بیچ یہ بہت رائج تھا۔ جب رشبھ کے ماں باپ شہر آئے ہوئے ہوں تو ہماری ذمہ داری ہوتی تھی اسے گھر سے باہر نکالنے کی۔ وہ باہر آتے ہی لمبی گہری سانس لیتا اور کہتا، ’اوہ! میں تو مر ہی جاتا اگر تمھارا فون نہیں آتا تو۔‘
کافی شاپ میں جیسے ہی رشبھ نے مجھے دیکھا ،وہ ہنسنے لگا۔
’بچا لیا بچّو۔‘ میں مسکرا کر رہ گیا۔ اس نے کافی آرڈر کی، اور میرے سامنے آکر بیٹھ گیا۔
’کیا، بچا لیا تجھے؟‘
اس بار اس نے سوال پوچھا۔ کیا جواب ہوسکتا ہے اس کا۔ میں پھر مسکرا دیا اور سوچنے لگا کس سے بچا لیا، اماں سے؟ ان کی خاموشی سے؟ ان باتوں سے جو اماں سے آنکھیں ملتے ہی ہم دونوں کے اندر رِسنے لگتی تھیں؟ یا پھر خود سے؟
’میں نے میگھا کو بھی بلا لیا ۔ وہ بھی آتی ہوگی۔‘
’کیوں۔ میگھا کو کیوں بلا لیا؟‘
’ارے یوں ہی۔ اس کا فون آیا تھا۔ وہ تیرے بارے میں پوچھ رہی تھی۔‘
’میں زیادہ دیر رک نہیں پاؤں گا۔ اماں اکیلی ہیں۔‘
اماں اکیلی ہیں کہنے کے بعد ہی مجھے لگا، ہاں، اماں بہت اکیلی ہیں۔ میرا دل چاہا کہ ابھی اسی وقت واپس چلا جاؤں مگر میں بیٹھا رہا۔
’اس نے کہا، اس نے تجھے فون کیا تھا مگر تونے اٹھایا نہیں؟‘
’ہاں! میں مصروف تھا۔‘
’کیسی ہیں اماں؟‘
’اچھی ہیں۔‘
’یار سن، چلی جائیں گی اماں کچھ دنوں میں۔ اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
’نہیں، میں پریشان نہیں ہوں۔ سب ٹھیک ہے۔ شکر ہے تونے فون کردیا۔ اب اچھا لگ رہا ہے۔‘
یہ سنتے ہی رشبھ خوش ہوگیا۔ جو وہ سننا چاہتا تھا میں نے کہہ دیا تھا۔ تبھی کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ میں اس کی طرف پلٹا ہی تھا کہ وہ میرے گلے لگ گئی، کچھ اس طرح کہ ’میں تمھارا دکھ سمجھتی ہوں۔‘ میں سمجھ گیا یہ میگھا ہی ہے۔ وہ کچھ دیر تک میرے گلے لگی رہی۔ میں تھوڑا پریشان ہونے لگا تھا۔ تبھی وہ میری پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ مجھے ایسی تسلیوں سے ہمیشہ نفرت رہی ہے۔ میں نے فوراً میگھا کو الگ کردیا۔ وہ میری بغل میں بیٹھ گئی اور بیٹھتے ہی اس نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا، ’کیسے ہو؟‘
میرا دل چاہا کہ ابھی اسی وقت یہاں سے بھاگ جاؤں۔
’کافی پیوگی؟‘
یہ کہتے ہی میں اٹھنے لگا۔ تبھی رشبھ بولا۔ ’تم لوگ بیٹھو۔ میں لے کر آتا ہوں کافی۔‘
رشبھ کے جاتے ہی میگھا نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھ دیا۔
’میں نے تمھیں فون کیا تھا۔‘
’ہاں، سوری میں مصروف تھا۔‘
’ہاں، میں سمجھ سکتی ہوں۔‘
’میں زیادہ رک نہیں پاؤں گا۔ اماں گھر میں اکیلی ہوں گی۔‘
’تم چاہو تو میں تمھارے ساتھ آسکتی ہوں۔‘
’نہیں، شکریہ۔‘
مجھے پتہ ہے رشبھ کافی لے کر جلدی نہیں آئے گا۔ وہ ہم دونوں کو تنہائی میں وقت دینا چاہتا تھا۔ میگھا بہت اچھی لڑکی ہے مگر اس میں ممتا اتنی بھری ہوئی ہے کہ وہ مجھے پریشان کردیتی ہے۔ رشبھ کے حساب سے وہ میرا خیال رکھتی ہے، جب کہ میرے حساب سے وہ ان عورتوں میں سے ہے جو دوسروں کے دکھوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ انھیں اس کام میں بڑا مزہ آتا ہے۔ دوسروں کی تکلیف میں ایک سچے دوست کی حیثیت سے کردار نبھانا۔ میگھا جب بھی مجھے دیکھتی ہے، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ میرے چہرے پر دکھ کی لکیریں تلاش رہی ہے۔ اس کے ساتھ تھوڑٰی دیر رہنے کے بعد میں سچ میں دکھی ہوجاتا ہوں۔ رشبھ کے کافی لاتے ہی میں اٹھ گیا۔ رشبھ منع کرتا رہا مگر میں نہیں مانا۔ جاتے جاتے میگھا نے بہت سنجیدہ آواز میں مجھ سے کہا کہ "You Know I am Just a phone call away” میں نے ہاں میں سر ہلایا اور تقریباً دوڑتا ہوا اپنے گھر چلا آیا۔
میرا کبھی کبھی دل چاہتا تھا کہ میں جھنجھوڑ دوں یا پرانی گھڑی کی طرح اماں اور میرے بیچ کے تعلق کو زمین پر دے ماروں اور یہ تعلق پھر سے پہلے جیسا کام کرنا شروع کردے۔ بیچ میں گزرے ہوئے سالوں کو ربر لے کر مٹا دوں، گھس دوں، کوئی بھی نشان نہیں رہے۔ میں سب بھولنا چاہتا ہوں مگر اماں نہیں بھولنے دیتیں۔ شاید اماں بھی سب بھولنا چاہتی ہیں مگر میرے آس پاس کی خالی جگہ میں انھیں بار بار انو کا نہ ہونا نظر آجاتا ہوگا۔
انو یہیں ہے، اسی شہر میں۔ اگر وہ کسی دوسرے شہر میں ہوتی یا دلّی میں، اپنی ماں کے پاس چلی جاتی تو شاید سب کچھ تھوڑا آسان ہوتا۔ اماں اب بھی امید رکھتی ہیں کہ سب کچھ پہلے جیسا ہوسکتا ہے۔ زندگی کتنی تیزی سے آگے بڑھ جاتی ہے، پتہ ہی نہیں چلتا۔ اماں بہت پرانا جی رہی ہیں، نیا انھیں کچھ بھی نہیں پتہ۔ انھیں نہیں پتہ کہ انو اب کسی اور کے ساتھ رہنے لگی ہے۔ وہ اس سے جلد شادی کرنے والی ہے۔ ہماری تحریری طور پر قانوناً طلاق ہوچکی ہے، جس کے پیپر میں نے نہ جانے کیوں اپنے ضروری کاغذات کے بیچ سنبھال کر رکھے ہیں۔ میں کبھی کبھی اسے اکیلے میں کھول کر پڑھ لیا کرتا تھا، مکمل، شروع سے آخر تک۔ ہمیشہ مجھے حیرت ہوتی تھی کہ ایک ذاتی تعلق کو ختم کرنے میں کتنے مردہ سرکاری الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مجھے ہمیشہ وہ عرضی ایک کہانی کی طرح لگتی تھی۔
میں نے دروازہ کھولا تو اماں محتاط ہوگئیں۔ میں نے دیکھا ان کے ہاتھ میں میری ڈائری ہے۔ کچھ سالوں سے مجھے ڈائری لکھنے کی عادت ہوگئی تھی۔ اس میں میں دکھ، تکلیف، روز مرہ کے کام نہیں لکھتا تھا۔ اس میں، میں تعجبات کو نقل کرتا تھا۔ چھوٹے چھوٹے تعجبات؛ جیسے آج ایک لال گردن والی چڑیا بالکنی میں آئی۔ میں اس ٹھیک پاس جاکر کھڑا ہوگیا مگر وہ اڑی نہیں، وہ مجھے بہت دیر تک دیکھتی رہی یا آج چائے میں، میں نے شکر کی جگہ نمک ڈال دیا۔ اماں نے مجھے دیکھتے ہی وہ ڈائری فریج کے اوپر یوں رکھ دی جیسے صفائی کرتے ہوئے انھیں وہ نیچے پڑی ہوئی ملی ہو۔
’رات کو کیا کھاؤگے؟‘ اماں نے فوراً بات بدل دی۔ میں نے ڈائری کو الماری کے اندر، اپنے کپڑوں کے نیچے دبا دیا۔
’آج کہیں باہر چل کر ڈنر کریں؟‘
’کہاں جائیں گے؟‘
’بہت سی جگہیں ہیں۔ چلیے نا، میں نے بھی بہت دنوں سے باہر کھانا نہیں کھایا ہے۔‘
’ٹھیک ہے۔‘
اماں کو باہر ہوٹل میں کھانا کھانے میں بہت مزہ آتا تھا۔ جب بھی وہ بہت خوش ہوتی تھیں تو کہتی تھیں، ’چلو، آج باہر کھانا کھاتے ہیں۔‘ ایک بار انو اور میں انھیں سزلر کھلانے لے گئے تھے۔ انھیں سزلر کھاتا دیکھتے ہوئے ہم دونوں کی ہنسی رک ہی نہیں رہی تھی۔
ہم دونوں ایک ساؤتھ انڈین ریستوران میں جاکر بیٹھ گئے۔ میں نے اسپیشل تھالی آرڈر کی اور اماں نے نارمل۔ مجھے بہت بھوک لگ رہی تھی، تو میں تھالی آتے ہی کھانے پر ٹوٹ پڑا۔ اماں بہت دھیرے دھیرے کھا رہی تھیں۔ کچھ دیر میں انھوں نے کھانا بند کردیا۔
’کھانا ٹھیک نہیں لگا کیا؟‘ میں نے کھاتے ہوئے پوچھا۔
’من کھٹا ہے۔ ذائقہ کہاں سے آئے گا۔‘
میں نے بھی کھانا بند کردیا۔ جن باتوں کے زخم ہم نے گھر میں دبا کے رکھے تھے، مجھے لگا وہ یہاں پھوٹ پڑیں گے۔
’کیا ہوا؟‘ میں پوچھنا چاہتا تھا مگر میں خاموش رہا۔ اماں پانی پینے لگیں۔ میری بھوک ابھی ختم نہیں ہوئی تھی مگر ایک اور بھی نوالا کھانا میرے بس میں نہیں تھا۔
’بھائی کیسا ہے؟‘
اماں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ بھائی اور میری بات چیت بہت پہلے بند ہوچکی ہے۔ میرے اکیلے رہ جانے کا ذمہ دار وہ مجھے ہی مانتا ہے۔ اماں اسی کے ساتھ رہتی ہیں۔ اس نے اماں کو بھی منع کر رکھا تھا مجھ سے ملنے کے لیے۔ اب شاید اس کا غصہ بھی ٹھنڈا ہوگیا ہوگا اور اس نے اماں سے کہا ہوگا کہ جاؤ دیکھ آؤ اپنے لاڈلے کو اور اماں بھاگتی ہوئی سب ٹھیک کرنے چلی آئیں۔
’عجیب سا بنایا ہے آپ نے یہ۔ کوئی ذائقہ ہی نہیں ہے۔‘
میں نے ویٹر کو بلا کر پھٹکار لگائی۔ وہ دونوں تھالیاں اٹھا کر لے گیا۔
’اماں، چلو آئس کریم کھاتے ہیں۔‘
’مجھے کچھ بھی نہیں کھانا ہے۔ کچھ بھی نہیں۔ چل گھر چلتے ہیں۔‘
میں نے بل ادا کیا اور ہم دونوں گھر واپس آگئے۔
اماں نے میرا ہاتھ پکڑا اور وہ مجھے لے کر بالکنی میں چلی آئیں۔ وہ ہمیشہ ایسا ہی کرتی تھیں، جب بھی کوئی ضروری بات کہنی ہو وہ ہاتھ پکڑ کر، الگ لے جاکر بات کہتی تھیں مگر یہاں تو کوئی بھی نہیں تھا۔ شاید بات زیادہ ضروری ہوگی۔
’اب تُو کیا کرے گا؟‘
’کچھ بھی نہیں اماں۔ میں کیا کرسکتا ہوں!‘
’تو اسے ایک بار فون تو کرلیتا!‘
’نہیں، اس نے منع کیا ہے۔‘
’کیا، کیوں؟ تو اس کا خاوند ہے۔ تو فون بھی نہیں کرسکتا ہے کیا؟‘
اماں کی آواز تھوڑٰی اونچی ہوگئی۔ میں خاموش ہی رہا۔
’تو بہت ضدی ہے۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ کبھی کبھی تجھے جو اچھا نہ لگے وہ بھی تجھے کرنا چاہیے۔ کبھی تو اپنے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچ۔ تو ہمیشہ، ہر جگہ اہم نہیں ہے۔‘
’اماں اس رشتے کو اب نہیں بچایا جا سکتا ہے۔‘
’اب وہ وقت نکل چکا ہے۔ یوں بھی میرے ہاتھ میں کچھ تھا بھی نہیں۔‘
’کیا مطلب وقت نکل چکا ہے؟‘
’جیسے آپ یہ سب ہوتا ہوا دیکھ رہی ہیں ویسے ہی میں بھی یہ سب ہوتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔‘
’تُو سیدھے سیدھے کیوں نہیں بات کرتا ہے؟‘
کیا سیدھے سیدھے بات کی جاسکتی تھی؟ شاید میں سیدھے سیدھے بات کرسکتا مگر ان سیدھی باتوں کے الفاظ اتنے نکیلے تھے کہ وہ میرے حلق میں کہیں اٹک جاتے، چبھنے لگتے۔ میں سب کچھ سیدھا ہی کہنا چاہتا تھا مگر اس چبھن کی وجہ سے باہر معنی بدل جاتے۔ میں اب سیدھی بات نہیں کہہ سکتا ہوں۔ میں بالکنی سے نکل کر اندر چلا آیا۔ اماں وہیں کھڑی رہیں۔ میں جانتا ہوں اس وقت اماں میری باتوں کے تانے بانے سے معانی نکالنے میں جٹی ہوں گی۔ پھر ان معانی کے بہت سے سوال ہوں گے اور اور سوالوں کے جواب پھر میرے حلق میں چبھیں گے اور اس بار میں خاموش رہوں گا۔
کیا ہوا تھا میرے اور انو کے بیچ؟
اب میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے ہنسی آجاتی ہے۔
ہم دونوں ایک لمبی سیر کے لیے نکلے تھے۔ میں اپنا پرس گھر پر بھول گیا۔ اس نے کہا، ’کیوں چاہیے تمھیں پرس؟ تمھارے پاس کبھی پیسے تو ہوتے نہیں ہیں۔‘ مگر میں واپس گھر چلا گیا اپنا پرس اٹھانے۔ جب میں واپس آیا تو وہ وہاں پر نہیں تھی۔ وہ چلی گئی تھی۔ میں نے اسے فون کیا، ’کہاں چلی گئیں؟‘ اس نے کہا، ’آتی ہوں۔‘ وہ بس آنے ہی والی تھی اور میں انتظار نہیں کر رہا تھا۔ جب میں نے انتظار کرنا شروع کیا، وہ واپس نہیں آئی۔
اماں بہت دیر بعد کمرے میں واپس آئیں۔ میں دونوں کے بستر لگا چکا تھا۔ اماں نے ہاتھ منھ دھوئے، اپنے بیگ سے سندر کانڈ کی چھوٹی سی کتاب نکالی اور اس کی قرأت کرنے لگیں۔ میں اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ بچپن ہی سے مجھے اماں کی زبان سے سندرکانڈ سننے کی عادت ہے۔ کچھ دیر میں مجھے جھپکی آنے لگی۔ کب آنکھ لگ گئی پتہ ہی نہیں چلا۔ اچانک مجھے آواز سنائی دی۔
’بیٹا… بیٹا…‘
میں تھوڑا ہڑبڑا کر اٹھا۔ اماں میری بغل میں بیٹھی تھیں۔
’کیا ہوا اماں؟‘
’تیری کمر میں درد رہتا ہے نا، تیری گرم تیل سے مالش کردیتی ہوں۔‘
میں نے دیکھا اماں کے ہاتھ میں ایک کٹوری ہے۔
’کتنا بج رہا ہے؟‘
’تو سوجا نا۔ میں مالش کرتی رہوں گی۔‘
’اماں میری کمر بالکل ٹھیک ہے۔ کچھ نہیں ہوا ہے۔‘
’مجھے سب پتہ ہے۔ تو پلٹ جا، چل۔‘
میں پلٹ گیا اور اماں میری کمر کی مالش کرنے لگیں۔ مالش کے دوران میں اماں کو کہتا رہا، ’بس… بس… ہوگیا۔‘ مگر اماں نہیں مانیں۔
میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’کیا ہوگیا بیٹا؟‘
’باتھ روم سے آتا ہوں۔‘
میں باتھ روم میں جاکر تھوڑی دیر بیٹھ گیا۔ اماں میری مالش نہیں کر رہی تھیں، وہ اپنے بیٹے کو چھو رہی تھیں جسے انھوں نے بچپن میں اپنا دودھ پلایا تھا، نہلایا دھلایا تھا، جسے انھوں نے اپنے سامنے بڑا ہوتے دیکھا تھا۔ میں وہ نہیں ہوں۔ میں بڑا ہوتے ہی دوسرا آدمی ہوچکا ہوں۔ بچپن میرے سامنے ایک کھلونے کی طرح آتا ہے جس سے میں کھیل چکا ہوں۔ میرے گھر میں وہ کھلونا اب سجاوٹ کی چیز بھی نہیں بن سکتا ہے۔
میں نے منھ پر کچھ پانی مارا۔ باہر آیا تو دیکھا اماں اپنے بستر پر لیٹ چکی ہیں۔
’لائٹ بند کردوں؟‘
’ہممم…‘
میں نے لائٹ بند کردی۔ دھیرے سے اپنے بستر میں گھس گیا۔ کچھ کروٹوں کے بعد اچانک اماں کی آواز آئی۔
’بیٹا کل میرا ریزرویشن کرا دینا۔‘
’کچھ دن رک جاؤ۔‘
’نہیں، تیرے بھائی نے جلدی آنے کو کہا تھا۔‘
’ٹھیک ہے۔‘
خاموشی… سناٹا… کچھ کروٹوں کی کھرکھراہٹ… خاموشی اور آخر میں نیند۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں