محمد خوشتر
ریسرچ اسکالر یونیورسٹی آف حیدرآباد
موبائل۸۳۴۱۱۱۶۳۹۷
آج ثناء خوش تھیں۔۔۔۔۔۔ارے ثنا ء کیوں خوش ہو فیاض نے پوچھا!بتایا کہ دادا نے جو آم کا پیڑ لگایا تھا اس کی جڑیں مضبوط ہوکر بڑادرخت بن چکی ہیں اور وہ آم کا شجر مثمرہ بھی ہوچکا ہے ۔ حسب حال ثناء کا خاندان، پریوار اور اس کی فیمیلی غربت زدہ تصور کی جاتی ہے اور یہ سبھی ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتے اور بستے ہیں ۔ثناء اپنی بہنوں اور بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہے سبھی ان کو پیار کرتے ہیں اور کیوں نہ ہوکہ خاندان میں سب سے چھوٹی ، پیاری ، سبھی کی دلاری اور گڑیا جو ہے۔چلئے نا پاپا !آم کے باغیچے میں روتی ہوئی ثناء بولی۔ پھر کیا تھا ممی نے سر اٹھایا! ہاں میں ہاں ملائی اور ایک دم سے چہک اٹھیں’’باغ‘‘ہی تو جانے کو بول رہی ہیں کونسا آفس اور دوسرے گاؤں جانے کے لیے ضد کررہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ثناء کی عمر مشکل سے سات ،آٹھ برس کی ہوگی لیکن وہ آم کی شوقین اور دلدادہ ہے۔دسہری، لنگڑا اور زردآلو نہ جانے کون کون سے آم ہیں۔وہ نام تو نہیں جانتی لیکن باغ جانا چاہتی تھی اور جانا چاہتی بھی ہے وہ دو آم کھائے گی تو پیٹ بھر جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ مگرجانے کی ضد پر اڑی ہوئی ہے ان کے پاپا پیشے سے ماسٹر ہیں اور آج اتوارکا دن ہے چھٹی بھی ہے موقع بھی ہے اور بچی کی ضد بھی۔مگر نہ جانے وہ کیوں اداس ہے، غمگین ہے۔۔۔۔۔ہوتا یوں کہ مئی کا مہینہ ہے گرمیوں کی شدت اور لو کی تپش کے تھپیڑوں کی کثرت ہے دن کے بارہ بج رہے ہیں پھر بھی جانا ہے تو جاناہے۔۔۔۔۔بیٹی کی ضد کے سامنے پاپا کی ایک نہ چلی اور چلنا ہی پڑا۔۔۔۔۔
باغ پہونچے! مختلف اقسام کے آم کے پیڑ ہیں غالب کی زبان میں ـ’’گدھے آم نہیں کھاتے‘‘مگر یہ کیا بچے اور بچیاں سب پاپا کے ساتھ باغ کو گئے ہیں اور باغ میں کچھ افراد ایک جگہ اکٹھا ہیں پاپا ثنا کو چھوڑکر وہیں چلے جاتے ہیں اور گفتگو گاؤں کے مکھیا اور پردھان اور اس کی سیاست سے شروع ہوکر امریکہ کی سیاست تک چلی جاتی ہے یعنی کہ وہی بات ۔۔۔۔۔۔۔۔بات نکلی ہے تو دور تلک جائے گی اور حسن اتفاق کہ ملک میں الیکشن ہے اور گرمی کی شدت بھی ہے۔پاپا نے کہا کہ اس کی پارٹی کی جڑیں مضبوط ہیں۔تو کوئی کسی کی پارٹی کی جڑوں کو کمزور کررہاہے۔ الغرض کبھی جڑکھوکھلی تو کبھی جڑ مضبوط ،کبھی جڑکمزور تو کبھی اس ہوا میں اس کی جڑ اکھڑ جائے گی گویا جتنے منھ اتنی باتیں۔۔۔۔۔۔۔۔ہوتا یہ ہیکہ گاؤںکے لوگوں کو وقت کا پاس ولحاظ نہیں۔ٹایم کا خیال نہیں ،مگن لگن اور موضوع میں منہمک ہیں ثناء اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ کبھی اس پیڑ کے نیچے تو کبھی اس پیڑ کے نیچے، کبھی اس پیڑ پر تو کبھی اس پیڑ پرپھدک رہی ہیں،لہک رہی ہیں، چہک رہی ہیں ، اور ان کے پاپا گل چھرے اڑارہے ہیں کبھی اس کوشکست تواس کو جیت دلا رہے ہیں۔۔۔۔۔آخر وہ وقت بھی آیا کہ یہ خاندان باغ کی ہریالی ، آم کی خوشبو اور ذائقہ سے لطف اندوز ہوکر گھر پہنچتا ہے۔
بچے نا سمجھ ہیں وہ سیاست اور پولیٹیکس کے بارے میں نابلد ہیں وہ است مست اور ویست ہیں۔مگر پاپا آج گمبھیرہیں،شاکڈ ہیں، وہ متحیر ہیں کیوں کہ وہ کہہ رہے ہیں سیاست تو ہو رہی ہے۔ ملک میں جمہوریت تو ہے آزادی کو بھی ستر سال کا عرصہ بیت چکاہے پھر بھی ذات پات ،اونچ نیچ، بھید بھاؤ،دکھ سکھ، لین دین،سوچ فکر،رواداری، منافقت، منافرت، مذہبیت یہ سبھی جوں کا توں برقرار ہے۔آج اس کے پرے سب کو آگے بڑھنا چاہیے،پڑھنا چاہیے، کیوں کہ جمہوریت کی رسی کمزور پڑتی جارہی ہے اور اس کی جڑیں کھوکھلی ہوتی جارہی ہیں۔ہندوستان میں غربت کادور دورہ ہے۔لالچی سیاست دانوں نے مکڑی کے جال کی طرح اسے جکڑرکھا ہے۔
پاپاپاپا!ثناء روتے روتے چلاتے چلاتے اور آنکھ سے آنسو نکالتے بولی۔پاپاتو کہیں گم صم تھے، خاموش تھے، وہ جسم وجسمانیات کے ساتھ تو گاؤں میں تھے مگران کا ذہن،ان کا دماغ، ان کی یادداشت، ان کا ادراک کہیں اورتھا۔وہ شاندار،جاندار،سدابہار،خوش گواراوروفادارماضی کی یاد میں گم تھے ، حال میں جینا چاہتے تھے اور اسی طرح سے مستقبل کو بھی دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے انداز میں تبدیلی آرہی تھیں ،ان کے رہن سہن اورطوروطریقہ میں بدلاؤ محسوس کیا جا سکتا تھا۔پاپا تو وہی ہیں پھر اب پہلے کی طرح ہنس کیوں نہیں رہے ہیں ۔ باپ تو وہی ہیں مگر بدلے بدلے سے نظر آتے ہیں۔چہرہ اداس ہے، غمگین اور چہرے کا جغرافیہ تبدیل ہوچکاہے۔
ماں نے بچوں کو دلاسہ دلایا۔۔۔۔۔۔۔۔کسی کو سمجھا رہی ہیں ، کسی کو بتارہی ہیں معاذ کو ڈانتے ہوئے کہا خاموش!یعنی کہ ماں میں بھی چڑچڑاپن آگیا ہے بچے کچھ سمجھتے بہت کچھ نہ سمجھتے۔
اصل میں پاپا نے۔۔۔۔۔۔۔اسکول میں پیش آئے روزانہ کے واقعات و حالات کو اورحادثات واتفاقات کو بیان کرتے ہیں۔اور پوری کہانی ثناء کی ماں سے بیان کرتے ہیں کہ پہلے ایسا نہ ہوتاتھا آج میرے ساتھ ایساواقعہ ہوا۔فیاض اردو کے ٹیچر تھے وہ پانچ کلو میٹر دور شمال کی جانب ایک اسکول میں پڑھاتے تھے ان کے علاوہ الگ الگ سبجیکٹ کے کئی اور ٹیچر تھے ان سب کے رویے کی وجہ سے فیاض کبھی ڈرے سہمے تو کبھی اکیلاپن تو کبھی خوف زدہ توکبھی رنج میں مبتلا رہاکرتے تھے۔بیماری نے بھی پکڑاور جکڑلیا تھا!شوگر اور بلیڈ پریشر کی شکایت رہنے لگی ۔گھرکے حالات خراب ہوئے جارہے تھے ۔کمانے والا فرد واحد تھا اور سات لوگوں کا پریوار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیاض سبھوں کو سمجھاتے ، بلاتے، کہتے اور بتاتے کہ بیٹا پڑھو، لکھو اور آگے بڑھومیری زندگی کی جڑیں کمزورتر ہوتی جا رہی ہیں اور یہ تناور ، پھلداردرخت دن بدن بوڑھا ہوتا جارہاہے اس لیے اپنے آپ کو مضبوط کرواورسب اپنی اپنی جڑوں کو مضبوط تر۔اسس طرح یہ تناور وپھلداردرخت جڑسے اکھڑجاتا ہے اور اس خاندان کی جڑیں کھوکلی ہوجاتی ہیں۔اور پھر آہستہ آہستہ غربت کے عمیق گڈھے میں چلاجاتا ہے مگر !اسی دوران ثناء بڑھتی اور پڑھتی چلی جاتی ہے اور وہ خود کو ڈاکٹر بن کر اپنے خاندان کے جڑوں کو مضبوط کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ثناء پاپاکا یہ قول ہمیشہ دہراتی ہیں کہ پڑھنے اور آگے بڑھنے سے ہی ملک کی جڑیں مضبوط ہوں گی اورپڑھنے لکھنے سے ہی جمہوریت کی جڑوں کو مضبوط کیا جا سکتاہے۔
اس طرح یہ تناور درخت اور جڑیں مضبوط بناکر خاندان کو آگے بڑھانے میں مدد کرتی ہیں۔’’سچ کہا ہے کہ اگر ایک فرد جڑسے مضبوط ہواتو خاندان کی جڑ مضبوط ہوسکتی ہے‘‘۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں
1 تبصرہ
واہ بہترین افسانہ