(ظفر اقبال ظفر کی شاعری پر ایک نوٹ)
حقانی القاسمی
ظفر اقبال ظفرکا تخلیقی سفر نصف صدی سے ذرا کم ہے ۔وہ اپنے اس سفر میں بہت سے مشاہدات، محسوسات اور تجربات کے عمل سے گزرے ہیں اور اُن ہی تجربات و حوادث کو انھوں نے شعری پیکر عطا کیاہے۔ ان کے سامنے کلاسیکیت، ترقی پسندی ، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے بہت سے شعری رویے اور نمونے تھے، راہیں بھی بہت سی تھیں مگر انھوں نے عمومی راستے سے اجتناب برتا اسی لیے ان کی شعری صوت و صدا ، طرز احساس و اظہاراپنے اقران سے ذرا الگ ہے۔
ظفر اقبال ظفر کو شعر کہنے کا سلیقہ آتا ہے اور احساس ،اسلوب کی شائستگی کا ہنر بھی ہے ۔ موضوعات کی عمومیت بھی ان کے انفرادی اظہار کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی۔مطالعاتی وسعت ،طویل تخلیقی ممارست اور ریاضت نے ان کے اندر فکری اور فنی پختگی پیدا کر دی ہے۔ ان کے شعروں میں کوئی سقم اور شکستگی نہیں ہے۔ وہ شاعری کے جمالیاتی معیارات اور فنی لوازمات کا پورا خیال رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں جہاں خیال و الفاظ کی خوب صورتی، قوت اور روشنی ہے وہیں تکنیکی عمدگی ، موسیقیت اور اصلیت جیسی خوبیاں بھی ان کی شاعری میں موجود ہیں مگر ان تمام خوبیوں کے باوجود بابِ شاعری میں ظفر اقبال ظفر کو وہ ظفریابی نہیں ملی جس کے وہ واقعی مستحق ہیں۔ یہی وہ المیہ ہے جس سے بہت سے جینوئن تخلیق کاروں کو گزرنا پڑا ہے ۔ زندگی میں بہت سے تخلیق کار نظر انداز کیے گئے اور بہتوں کو ناقدری کا شکوہ بھی رہا مگر ان شکایتوں پر اربابِ نقد نے توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے فن کاروں کے تخلیقی احساس میں اضمحلال بھی آیا اور ان کے تخلیقی جذبے پر پژمردگی بھی چھائی رہی۔ ہاں کچھ خوش نصیب تخلیق کار ایسے ضرور ہوئے جنھیں زندگی میں اتنی پذیرائی تو نہیں ملی مگر موت کے بعد انھیں قدرے شہرت اور شناخت ضرور ملی اور تنقیدی حوالوں میں بھی شامل کیے گئے۔ فرانز کافکا، سیلویا پلاتھ، ڈکنسن، ایڈگر ایلن پو، جان کیٹس یہ وہ بڑے نام ہیں جنھیں عالمی ادب میں امتیاز حاصل ہے مگران کی زندگی میں انھیں بھی نظر انداز کیا گیا اور ان کے فکری اور تخلیقی انتاجات کے حوالے سے تنقیدی گفتگو نہ ہو سکی۔ظفر اقبال ظفر کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ معاصر غزلیہ شاعری کے حوالے سے جو تنقیدی مطالعات سامنے آئے ہیں ان میں ان کا ذکر نہ کے برابر ہے خاص طور پر اتر پردیش کے شعری منظر نامے پر گفتگو کرنے والے بھی ظفر اقبال کو پیش منظر میں نہیں رکھتے۔ یہ بہت بڑی نا انصافی ہے جو ظفر اقبال ظفر اور ان کے جیسے کئی شاعروں کے ساتھ کی جاتی رہی ہے جب کہ ان کی شاعری میں وہ تمام خوبیاں اور خصائص ہیں جو ان کی عظمت کے ثبوت کے لیے کافی ہیں۔
ظفر اقبال ظفر کی غزلیہ شاعری کا کسی بھی تنقیدی زاویے سے مطالعہ کیا جائے تو وہ ان تمام معیارات پر کھری اتر ے گی جو اچھی اورعمدہ شاعری کے لیے متعین کیے گئے ہیں۔ موضوع کی معنویت، اسلوب کی تخلیقیت اور زبان کی صفائی اور سلاست کے اعتبار سے بھی ظفر اقبال ظفر کی شاعری پختہ نظر آتی ہے۔ ان کے یہاں کلاسیکی شعریات کی پاس داری کے ساتھ ساتھ نئی شعریات اور نئے شعور کا اظہار بھی ہے ۔ انھوں نے بہت سی تحریکوں کے عروج و زوال کو بھی دیکھا ہے مگر ان کی شاعری کسی تحریک کے زیر اثر نہیں ہے۔ جدیدیت کے پیش کردہ وجودی مسائل کا اثر ضرور ہے مگر جدیدیت کی اسیری نہیں ہے۔ ان کی پوری شاعری فطرت اور مظاہر کائنات کے ارد گرد طواف کرتی ہے۔ان کا شعری مجموعہ ’ نمودِ سبز‘ نقوشِ فطرت کا تخلیقی مظہر ہے۔ ان کی شاعری میں وہی رموز و علائم ،تشبیہات و استعارات اور لفظیات ہیں جن کا فطرت سے گہرا رشتہ ہے۔ عشرت ظفر مرحوم نے فطرت سے ظفر اقبال کی شاعری کے ارتباط و انسلاک کی طرف لطیف اشارے کیے ہیں۔وہ لکھتے ہیں:
’’طفر اقبال ظفر نے اپنی غزل میں فطرت کے حوالے سے بہت گفتگو کی ہے ان کی غزلوںمیں بہت کم ایسے اشعارہیں جن میں مظاہر فطرت کا حوالہ نہ ہو‘‘
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ظفر اقبال کے یہاں فطرت کے مظاہر و مناظرکا بہت عمدہ عکس و نقش ملتا ہے۔ فطرت سے متعلق جن لفظیات کا عمومی طور پر ذکر کیا جاتا ہے ان میں آسمان، زمین،چاند ، سورج،ستارہ، صحرا، پھول ، سمندر، پرند، پانی، آگ ہوا اوربادل شامل ہیں۔ ظفر اقبال ظفر نے اپنی شاعری میں فطرت کی ان لفظیات کے ذریعے اپنی ذہنی اور جذباتی کیفیات کی بہت عمدہ عکاسی کی ہے۔ ان لفظیات کے حوالے سے ظفر اقبال ظفرکے چند اشعارملاحظہ فرمائیں جن سے ان لفظیات کی قوت ، توانائی، تازگی کے ساتھ معنیاتی ابعاد اورکثرتِ مفاہیم کا اندازہ ہوگا۔
آسمان فطرت کی ایک نا قابل تسخیر قوت ہے اور خدائی احساس کا مظہر بھی ۔یہ لافانیت، وسعت اور بے کرانی کی ایک علامت ہے۔ مختلف ثقافتوں اور مذاہب میں آسمان کے تعلق سے مختلف علامتی تصورات ہیں۔ یہ بلندی رفعت اور نا رسائی کابھی ایک اشاریہ ہے۔ ظفر اقبال ظفر کے یہاں آسمان کا استعمال اسی فطری مظہر کی وسعت اور نا رسائی کے حوالے سے ملتا ہے کہ اگر یقین ہو تو گمان کو چھونا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ آسمان تک رسائی دراصل ایک گمان ہی تو ہے مگر یقین سے آسمان کی بلندیوں کو بھی چھوا جا سکتا ہے۔ زمین و آسمان دونوں ہم رشتہ ہیں اور انسانی وجود سے ان دونوں کا بہت گہرا رشتہ ہے اور شاید اسی رشتے کی طرف شاعر نے بہت خوب صورت انداز میں اشارہ کیا ہے:
تھک کے بیٹھوں تو آسماں چھو لوں
گر یقیں ہو تو میں گماں چھو لوں
زمیں بچھائے ہوئے آسمان اوڑھے ہوئے
میں چل رہا ہوں سفر کی تکان اوڑھے ہوئے
زمین بھی زرخیزی اور لامحدود تخلیقیت کی ایک علامت ہے۔ نسائیت سے اس کی ایک خاص نسبت ہے۔ قدیم وجدید شاعروں نے بھی زمین کا علامتی اور استعاراتی استعمال کیا ہے ۔ میر، آتش، یگانہ، فانی کے یہاں بھی زمین کی علامتی معنویتیں ملتی ہیں۔ جدید شاعروں میں منیر نیازی اور بانی کے یہاں زمین بطور علامت و استعارہ موجود ہے۔ میر کا ایک شعر ہے:
خاکِ آدم ہی ہے تمام زمین
پائوں کو ہم سنبھال رکھتے ہیں
تو جدید شاعروں میںرئوف خیر کا ایک اچھا شعر ہے:
میں زمیں ہوں مگر میرے اندر
کوئی تو ہے جو آسمان سا ہے
ظفر اقبال نے اپنی شاعری میںزمین کے حوالے سے کئی شعر کہے ہیں جن میں اس کے علامتی اور عمومی تصورات سامنے آتے ہیں۔ یہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔ جن میں زمین بطور علا مت بھی ہے اور بطور عمومی استعمال بھی۔
زمیں پر پائوں دنیا کے کہاں ہیں
خلا میں پر کوئی لٹکا ہوا ہے
زمین پیروں کے نیچے سرک رہی تھی ظفر
لہو اگلتا ہوا سر پہ آسماں تھا بہت
تمہارے پائوں کے نیچے کوئی زمین نہیں
ہم اپنے سر پہ کئی آسمان رکھتے ہیں
چاند محبت، روشنی، تنہائی، حیرت، خوبصورتی، داخلی آگہی کی علامت ہے۔ شعور ،لاشعور کے درمیان کی ایک کیفیت ، مرد عورت کے رشتوں میں وحدت بھی اس میں شامل ہے۔ چاند معشوق اور محبوب کا استعارہ ہے۔ مہتاب، قمر، چاند، ہلال جیسے لفظوں کا استعمال شاعری میں کثرت سے ملتا ہے اور اسی سے جڑی ہوئی ماہ پارہ ، ماہ رُخ اور مہ جبیں جیسی ترکیبیں بھی ہیں۔ ظفر اقبال ظفرنے چاند کو اسی علامتی مفہوم میں استعمال کیا ہے۔اس تعلق سے چند شعر ملاحظہ ہوں۔
چاند اپنی چاندنی کے ساتھ رخصت ہو گیا
اور میرے احساس سے ایک روشنی لپٹی رہی
زندگی بھر تو رہا خواب ہی آنکھوں میں مری
پھر مرے پہلو میں یہ چاند کہاں سے آیا
سورج زندگی، توانائی ،اعتماد، طاقت اور مثبت توانائی کے ساتھ ساتھ منفی علامات سے بھی تحفظ کی علامت ہے ۔ طاقت اور امن کا مظہر ہے۔ اس کے کئی علامتی اور استعاراتی مفاہیم ہیں۔ قدیم شاعروں میں آرزو، سودا،مصحفی، شاہ نصیر، غالب، ثاقب لکھنوی، جلیل مانکپوری وغیرہ نے سورج کو بطور علامت استعمال کیا ہے ۔ جدید شاعروں کے یہاں بھی بطور علامتی اور اسطوری کردار کے اس کا استعمال ملتا ہے۔ وزیر آغا، احسان دانش، زیب غوری، بانی، عبید اللہ علیم، اطہر نفیس، پرکاش فکری اور شہاب جعفری وغیرہ کے یہاں سورج کے استعمال کی کئی اہم مثالیں ملتی ہیں۔ قدیم شاعروںمیں اصغر گونڈوی نے سورج کی معنویت کو اپنے شعر میں یوں روشن کیا ہے
کیا فیض بخشیاں ہیں رخ بے نقاب کی
ذرّوں میں روح دوڑ گئی آفتاب کی
تو وہیں جدید شاعروں میں احسان دانش نے بہت اچھا شعر کہا ہے:
فصیل شب سے کوئی ہاتھ بڑھنے والا ہے
فضا کی جیب سے سورج نکالنے کے لیے
ظفر اقبال ظفر نے بھی سورج کے تعلق سے بہت با معنی شعر کہے ہیں:
ہر اک نگاہ کو حیرت میں ڈال دیتا ہوں
زمیں کی تہ سے میں سورج نکال دیتا ہوں
اندھیرا ہے مری بستی میں ہر سو
میں سورج بن کے رہنا چاہتا ہوں
بہت اندھیرا تری بستیوں میں پھیلا ہے
دعا کو ہاتھ اُٹھا آفتاب اترے گا
مقید کر لیا سورج کو کس نے
اندھیرا ہر طرف پھیلا ہوا ہے
ستارہ بھی فطرت کا ایک خوب صورت مظہر ہے۔ اس کا تعلق بھی روشنی اور تحرک سے ہے ۔ قدیم و جدید دونوں شاعروں کے یہاں ستارہ بطور علامت موجود ہے۔ ظفر اقبال ظفرنے بھی اپنی شاعری میں ستارے کو اس کی علامتی معنویت کے ساتھ استعمال کیا ہے:
جگنو دیکھا نہ ستارہ میں نے
شب کو اس طرح گزارا میں نے
کوئی صورت نہیں آنے کی اس کے
ستاروں کو بھی نیند آنے لگی ہے
طلوع جب سے ہوا ہے نہیں ہوا وہ غروب
ستارہ میرا وہیں حسب حال ٹھہرا ہے
پھول مسرت اور تازگی کی ایک علامت ہے۔ ظفر اقبال ظفر نے اپنی شاعری میں پھول کی معنویت کو یوں واضح کیا ہے اور انسانی زندگی سے اس کے گہرے رشتے کو بھی بیان کیا ہے:
بنایا پھول تو پتھر بنا ہے
عجب انداز سے منظر بنا ہے
نہ پھول ہی کوئی رکھا نہ آرزو نہ چراغ
تمام گھر کو بیابان کر دیا میں نے
ہر پھول سے ٹپکنے لگا ہے لہو ظفر
مجھ کو جراحتوں کا شجر دے گیا ہے وہ
درخت بنیادی طور پر ذاتی ارتقا، وحدت اور زرخیزی ، طبعی اور روحانی غذائیت کی علامت ہے ۔ اس کا انسانی زندگی اور اس کے ارتقا سے گہرا رشتہ ہے۔ شجر اور درخت کا شاعری میں استعمال عام ہے اور اس کی کئی معنویتیں ہیں۔ قدیم شاعروں میں حاتم، میر، آتش، غالب، داغ، فانی، ثاقب تو جدید شاعروں میں ضیا جالندھری، طہور نظر، شکیب جلالی، شہزاد احمد، کمار پاشی، شہریار، ظفر اقبال کے یہاں درخت کا استعمال ملتا ہے۔ حاتم نے جہاں یہ شعر کہا ہے:
پیری میں حاتم اب نہ جوانی کو یاد کر
سوکھے درخت بھی کہیں ہوتے ہیں پھر ہرے
تو وہیں سلیم شاہد کا ایک شعر ہے:
جن درختوں کی گھنی چھائوں تھی وہ سب کٹ گئے
یوں لگا شاید مجھے جیسے میں بے گھرہو گیا
ظفر اقبال ظفرنے بھی درخت کا رشتہ شادابی، تازگی اور ارتقا سے جوڑا ہے:
دل میں شاداب جو شجر تھا ظفر
خشک ہو کر بکھر گیا مجھ میں
دعائیں سایہ بن کر چل رہی تھیں
درختوں کا کہیں سایہ نہیں تھا
وہ شجر سب کی نگاہوں میں کھٹکتا ہے بہت
راہ میں جس نے ہر اک کے واسطے سایہ کیا
سمندر بنیادی طور پر زندگی، طاقت اور فطرت کی ایک مضبوط قوت ہے ۔ یہ انسانیت کا الوہی سرچشمہ ہے ۔ انسانی زندگی سے سمندر کا ایک گہرا لگائو ہے۔ یہ ارتعاش اور تحرک کی بھی ایک علامت ہے۔ قدیم شاعروں میں سودا، میر، غالب، فانی، یگانہ اور جدید شاعروں میں ظفر اقبال، بانی، ناصر کاظمی، شہریار، عادل منصوری، بشیر بدر، آشفتہ چنگیزی کے یہاں مختلف مفاہیم میں سمندر کا استعمال ملتا ہے اور اس کی مختلف معنویتیں سامنے آتی ہیں۔ سودا کا ایک شعر ہے:
وہ سمندر ہے جس کا نہ کوئی پاٹ لگے
کشتی عمر مری دیکھیے کس گھاٹ لگے
ظفر اقبال ظفر نے بھی سمندر کو مختلف معنیاتی سیاق و سباق میں استعمال کیا ہے:
صحرا کی طرف ہے نہ سمندر کی طرف ہے
رخ ساری بلائوں کا میرے گھر کی طرف ہے
سمندر سے بجھی ہے پیاس کس کی
سرابوں سے گزرنا چاہتا ہوں
ہے دشت میں سراب بھی چاروں طرف مرے
سیراب کرنے والا سمندر چلا گیا
کیا کھلے آنکھ میں منظر کوئی
چاند سبزہ نہ سمندر کوئی
عمر بھر موجوں میں الجھا ہوں میں
پھر سمندر میں اترنا سیکھا
ہماری پیاس نہ بجھ پائی جب سمندر سے
لہو کشید کیا ہم نے اپنے خنجر سے
موجوں سے الجھنے کا سلیقہ بھی ہے ہم کو
ساحل سے سمندر کا نظارہ نہیں کرتے
نائو کاغذ کی سمندر سے نکل آئی ہے
ایک کہانی اسی منظر سے نکل آئی ہے
پتھر صلابت، استقامت اور استحکام کی علامت ہے۔ یہ طاقت کا بھی مظہر ہے۔ قدیم شاعروں میں میر، درد، مصحفی، آتش، غالب، داغ، ریاض تو جدید شاعروں میں شکیب جلالی، ناصر کاظمی، مصحف اقبال توصیفی، زیب غوری اور شہریار کے یہاں پتھر کا بہت ہی خوب صورت معنی خیز استعمال ملتا ہے۔ مصحفی کا ایک شعر ہے:
جس سنگ پہ خون کوہ کن تھا
وہ سنگ بھی تختہ چمن تھا
تو شکیب جلالی کا ایک شعر ہے
اور دنیا سے بھلائی کا صلہ کیا ملتا
آئینہ میں نے دکھایا تھا کہ پتھر برسے
ظفر اقبال ظفر نے بھی پتھر کو اس کی مختلف معنویتوں کے ساتھ اپنے شعروں میں استعمال کیا ہے:
انگلیاں زخمی ہیں اور پتھر سے ہے رشتہ میرا
نقش ہر دیوار پر ہے خون سے لکھا میرا
لوگ کہتے ہیں بستیٔ انساں
آدمی ہیں یہاں تو پتھر کے
پانی تبدیلی، تحرک ، حرکت اور بہائو کی علامت ہے۔ تزکیہ و تطہیر سے بھی اس کی مناسبت ہے۔ قدیم شاعروں میں میر، سودا، آتش، مصحفی، اور ثاقب لکھنوی کے یہاں اس کا استعمال ملتا ہے۔ جدید شاعروں نے نئے تلازمے کے ساتھ پانی پر شعر کہے ہیں۔ شکیب جلالی، ساقی فاروقی، شہزاد احمد، عزیز قیسی، عدیم ہاشمی، اعجاز عبید نے بہت اچھے شعر کہے ہیں۔ میرتقی میر کا ایک شعر ہے:
نمود کر وہیں بحر غم میں بیٹھ گیا
کہے تو میر اک بلبلہ تھا پانی کا
جدید شاعر شہزاداحمد نے پانی کو دوسرے مفہوم و معنی میں استعمال کرتے ہوئے کہا:
میں کہ خوش ہوتا تھا دریا کی روانی دیکھ کر
کانپ اٹھا ہوں گلی کوچو ںمیں پانی دیکھ کر
ظفر اقبال ظفر نے بھی پانی کو اس کے حقیقی مفہوم میں استعمال کیا ہے:
چار جانب ہے پانی ہی پانی
کیسے پائوں سراغ ساحل کا
آگ بقا اور زندگی کی علامت ہے ۔ انسانی زندگی سے آگ کا بہت گہرا رشتہ ہے۔ اس کے مثبت اور منفی دونوں مفاہیم ہیں جو اردو شاعری میں استعمال ہوئے ہیں۔ قدیم شاعروں میں سراج اورنگ آبادی، میر، میر حسن، سودا، مصحفی، غالب، آتش، یگانہ، اصغر کے یہاںآگ کا مختلف معنیاتی سیاق و سباق میں استعمال ہوا ہے۔ جدید شاعروں میں ظفر اقبال، اطہر نفیس، بانی، محمود ایاز، لطف الرحمن، شمس الرحمن فاروقی، احمد مشتاق وغیرہ نے عمدہ شعر کہے ہیں۔ مصحفی کا شعر ہے :
لگ رہی ہے خانۂ دل کو ہمارے آگ ہائے
اور ہم چاروں طرف پھرتے ہیںگھبرائے ہوئے
جدید شاعر احمد مشتاق کہتے ہیں:
دلوں کی اور دھواں سا دکھائی دیتا ہے
یہ شہر تو مجھے جلتا سا دکھائی دیتا ہے
ظفر اقبال ظفر نے آگ کو مختلف معنویتوں کے ساتھ اپنی شاعری میں جگہ دی ہے :
آگ ہی آگ ہے ہر سمت یہاں
زد سے اس کی نہیں باہر کوئی
آگ سی محسوس ہوتی ہے بدن میں
ذہن میں گویا کمانیں ٹوٹتی ہیں
ہوا تبدیلی اور تباہی کی ایک علامت ہے جو ایک غیر مرئی قوت ہے۔ یہ تعمیری بھی ہے اور تخریبی بھی۔ اردو شاعری میں منفی اور مثبت دونوں طور پر ہوا کا استعمال ملتا ہے۔ قدیم شاعروں میںسراج اورنگ آبادی، میر تقی میر، دوق، نسیم دہلوی، جلیل مانک پوری، انیس، یگانہ نے ہوا کو مختلف معنویتوں میںاستعمال کیا ہے تو جدید شاعروں میں احمد ندیم قاسمی، اختر ہوشیار پوری، حمید الماس، مظہر امام، زیب غوری کے یہاں ہوا کے مختلف تصورات اور مفاہیم نظر آتے ہیں۔ نسیم دہلوی کا شعر ہے:
گر یہی ہے باغ عالم کی ہوا
شاخ گل اک روز جھونکا کھائے گی
تو زیب غوری کا شعر ہے:
ہوا کے شور میں صدائیں سنتا کون
پکارتا رہا گرتے مکان کے اندر
ظفر اقبال ظفر نے بھی ہوا کو اس کے مختلف سیاق و سباق میں استعمال کیا ہے۔ یہ چند اشعار دیکھیں:
ہوا کا شور سننا چاہتا ہوں
خلا سے اپنا رشتہ چاہتا ہوں
زندگی میری ہوائوں کی ہے زد پر لیکن
فصل خوابوں کی ابھی آنکھ میں تیار نہیں
الزام دوں ہوائوں کو میں کس طرح ظفر
اپنے شکستہ جسم کی دیوار میں ہی تھا
فطرت اور اس کے مظاہر سے متعلق ان ہی لفظیات سے ظفر اقبال ظفر کی شعری تشکیل ہوئی ہے۔اس لیے ان کے یہاں فطرت اور کائنات کی کیفیات کا بہت ہی پر اثر بیانیہ نظر آتا ہے۔ ماں بھی فطرت کا ایک خوبصورت مظہر ہے۔ اس لئے ماں کے حوالے سے بھی ان کے یہاں بہت خوبصورت شعر ملتے ہیں۔
ساتھ میں ماں کی دعا اپنے ہمیشہ رکھو
یہ ہمیں غم سے نکلنے کا ہنر دیتی ہے
ماں کے قدموں تلے اللہ نے جنت رکھی
ماں کی ہر حال میں ہر طرح سے خدمت کی جائے
سکھایا اس نے ہے انگلی پکڑ کے چلنا ہمیں
ہم اپنی ماں کا کہاں پھر بھی دھیان رکھتے ہیں
ظفر اقبال ظفر کے یہاں فطرت کی جن لفظیات کا استعمال ہوا ہے ان کی کئی معنیاتی جہتیں ہیں۔ ایک ہی معنی یا مفہوم پر مرتکز نہیں ہیں بلکہ سیاق و سباق کے اعتبار سے ان کے مفاہیم بدلتے رہتے ہیںکہ در اصل فطرت بھی تغیر پذیر ہوتی رہتی ہے اور زمان و مکاں کے لحاظ سے اپنی صورت و کیفیت بدلتی رہتی ہے۔
موضوعات اور اسالیب دونوں زاویے سے ظفر اقبال ظفر کی شاعری کاجائزہ لیا جائے توبہت سے اہم نکتے سامنے آئیں گے۔ انھوں نے شعری کمپوزیشن کے عمومی موضوعات کے ساتھ ساتھ عوامی ترجیحات کے موضوعات کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے اور بدلتے زمانے کے مسائل، واردات، مشکلات، مصائب، آلام و آزا ر، جدید انسان کے بحران اور بے چہرگی پر بھی شعر کہے ہیں۔ جدید غزل کے جو مخصوص موضوعات ہیں مثلاًمحرومی، مایوسی، نا امیدی، اداسی، انتشار، اضطراب، ٹوٹ پھوٹ، شکستگی، بے گھری، قنوطیت، یاسیت ، بیگانگی، بے زاری، اجنبیت، تنہائی، تشکیک،بے تعلقی، خوف، عدم تحفظ، شکست وریخت، قدروں کا زوال وغیرہ یہ تمام ان کے موضوعاتی کینوس کا حصہ ہیں۔ آج کی متناقض اور متخالف زندگی کا منظر نامہ ان کی شاعری میں منقش ہے۔
ظفر اقبال ظفر کی شاعری میں یک رنگی ٔ احساس نہیں بلکہ احساسات کی مختلف سطحیں ہیں جو وقت حالات یا سچویشن کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہیں اسی لیے کبھی روشنی، کبھی اندھیرا، کبھی مسرت، کبھی اذیت، کبھی امید، کبھی نا امیدی، کبھی شگفتگی، کبھی شکستگی، زمین و زماں کے موسم کے ساتھ ساتھ ذہنی موسموں میں بھی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ یہ شعری احساس کسی ایک نقطے پر مرکوز نہیں ہے بلکہ سیال پانی کی طرح اپنی کیفیت اور رنگ بدلتا رہتا ہے ۔ خیال اور احساس کو کسی ایک مقام یا مرکز پر قرار نہیں بلکہ یہ اضطراب کی کئی موجوں سے گزر کر منزلوں تک پہنچنے کی سعی کرتا ہے۔ یہی اضطرابی لہریں ظفر اقبال کی شاعری کو ہمارے احساس کا حصہ بنا دیتی ہیں اور پڑھنے والا بھی ان ہی کیفیتوں سے ہم کنار ہوتا ہے جن سے ان کی شاعری گزرتی ہے۔ کہیں تلاطم، کہیں تصادم، کہیں تفاہم، کہیں تقسیم وتفریق، کہیں ترابط و توافق یہی ہے زندگی کا رنگ اور اسی رنگ کی آئینہ دار ہے ظفر اقبال ظفر کی شاعری۔ زندگی کے تضادات کو جس طور پر انہوں نے معاشرے میں محسوس کیا ہے اسی طور سے انھوں نے اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ صحرا، پہاڑ، ندی، سمندر سب ان ہی تضادات کے استعارے ہیں ۔ ان سے جو تصویر بنائی جاتی ہے وہی کلی تصویر ہوتی ہے کیوں کہ صرف انسانی ذہن ہی نہیں زمین وزماں بھی ان ہی تضادات کے عمل سے گزرتے ہیں۔ ظفر اقبال ظفر نے جہاں اپنے شعروں میں بے گھری کے کرب کا ذکر کیا ہے وہیں گھر کی عافیت و آسائش کا بھی بیان ہے، جہاں جڑوں سے جدائی کی بات ہے وہیں جڑوں سے پیوستگی کا بھی ذکر ہے۔ یعنی اپنی شاعری کے ذریعہ انھوں نے یہ بتایا ہے کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں ، زمانے بدلتے ہیں تو ذہنیتیں تبدیل ہوتی ہیں۔ قدریں بدل جاتی ہیں۔ سالمیت شکستگی کا روپ لے لیتی ہے تو کبھی اجنبیت قربت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ تبدیلیوں کا یہی تدویری عمل حیات و کائنات کی حقیقت ہے اور اسی حقیقت کی عکاسی ظفر اقبال کی شاعری میں ہوئی ہے:
یہ شہر مرا ہے کہ آشوب کی بستی
انسانوں میں اب بوئے وفا تک نہیں آتی
یہاں تو آشنا ہیں سارے چہرے
سبھی کے ہاتھ میں خنجر کھلے ہیں
ظفر تنہائی اب ڈسنے لگی ہے
تری تصویر اب رکھنا چاہتا ہوں
کچھ تو ہوتا مری تنہائی بہلتی جس سے
میرے خوابوں کے گھروندے میں دریچہ ہی نہیں
اپنی تنہائی کہاں لے جائوں
ہر طرف شہر میں ہنگامہ ہے
جانے کیا زہر ہے ہوائوں میں
سانس لینے میں سانس رکتی ہے
بم کی بارش ہو رہی ہے ہر طرف
آدمی ہے خود سے اب سہما ہوا
کٹ رہی ہے ڈور رشتوں کی ظفر
آج انسانوں کو آخر کیا ہوا
اے ظفر کون سی بستی میں میں آ پہنچا ہوں
موت ہی موت کا بازار نظر آتا ہے
سب ہی قاتل دکھائی دیتے ہیں
کس سے پوچھوں پتہ میں قاتل کا
یہ کس صدی کا سفر کر رہے ہیں ہم آخر
ہر ایک شخص ظفر خون میں نہایا ہے
ملا تھا دوست کی صورت جو مجھ سے
گرے خنجر اسی کی آستیں سے
نہ جانے کب سلگ اٹھے یہ بستی
گھروں میں بجلیاں ٹھہری ہوئی ہیں
سیاہی اس قدر پھیلی ہوئی ہے
نشاں ملتا نہیں ہے روشنی کا
جسے بھی دیکھوں وہ ٹوٹا ہوا ہے اندر سے
شکست و ریخت کا ہر سمت سلسلہ ہے یہاں
ہماری بستی میں ہر سمت ہو کا عالم ہے
کوئی تو چیخے کہیں سے تو کچھ صدا نکلے
اے خدا کس کرب سے دو چار ہے میرا وجود
ٹوٹتے لمحوں کی یہ کیسی صدا ہے ہر طرف
انسانی زندگی کے یہ شعری منظر نامے ہیں۔ انسان کی وجودی صورت حال کی یہ شاعرانہ تفہیم و تعبیر ہے جس میں اقدار کا زوال بھی ہے ، بے چہرگی بھی ،ماحول کی کثافت بھی ہے،بے وفائی و بے اعتباری بھی ،خوف و دہشت بھی ، ٹوٹتے ، بکھرتے رشتوں کی کہانی بھی ، شکستگی ، افسردگی، آزردگی، آشفتگی، افتادگی، محزونی، لاحاصلی، بے رونقی بھی ہے اور انسانی کرب و اضطراب کا منظر بھی ، انسانی معاشرے کے جو شب و روز ، واردات، وقوعات، حادثات ہیںوہ سب موضوعاتی سطح پر ظفر اقبال کی شاعری کا حصہ ہیں ۔
جدید غزل ان ہی طرح کے خیالات ، جذبات اور محسوسات سے معمور ہے۔ جدید دور کا شاعر اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھ رہا ہے یا جو کچھ محسوس کر رہا ہے اسے وہ من و عن بیان کر دیتا ہے یہ ہمارے عہد کی وہ حقیقتیں ہیں جن کا ادراک معاشرے کے ہر حساس فرد کو ہے۔ آج کی غزل کے یہ حاوی اور غالب موضوعات ہیں جن کے حوالے سے زیادہ تر جدید غزل کے شعرا شعر کہتے رہے ہیں۔ ظفر اقبال ظفر کا بھی موضوعاتی دائرہ عصری حسیت سے جڑا ہوا ہے اس لیے ان کے یہاں بھی آج کے زمینی اور زمانی مسائل سے جڑے ہوئے شعر مل جاتے ہیں۔
اسلوبیاتی لحاظ سے بھی ظفر اقبال ظفر کی شاعری جدید غزل کی لفظیات، علامات، اشارات سے ہم آہنگ ہے ۔انھوں نے جدید لفظیاتی نظام سے اپنا رشتہ جوڑا ہے اور زمانے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ علائم و رموز میں جو معنیاتی تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیںان کا انھوں نے بطور خاص خیال رکھا ہے۔ قدیم لفظیات اور اس کے تلازموں سے الگ انھوں نے جدید غزل کی لفظیات کو اپنی شاعری میں بہت ہی ہنرمندی کے ساتھ برتا ہے۔ جدید غزل میں عموماً جن لفظیات ، علامات اور استعارات پر زیادہ زور ہے پروفیسر مغنی تبسم کے مطابق ان کی فہرست کچھ یوں ترتیب پاتی ہے :
’’سمندر، دریا، ندی، پانی،لہر، موج، گرداب، بھنور، برف، ساحل، ریت، کشتی،نائو، بادل، بادبان،پتوار، جزیرہ،، بارش، برسات، ابر،بادل، تالاب، کنواں،دلدل،بارش، تشنگی، سراب، دشت، جنگل، صحرا، خرابہ، کھنڈر، سانپ، خوف، خطر، ڈر، دہشت، آسیب، عفریت، آہٹ، چاپ، پرچھائیں، زمین، خاک، مٹی، چاک، پتھر، سنگ، چٹان، کنکری، پہاڑ، درخت، شجر، پیڑ، ہتا، برگ، چھائوں ، پرند، اُڑان، آگ، خاکستر، چنگاری، شرر، دھواں، آسمان ، چاند، چاندنی، ستارہ، تارہ، خلا، سورج، دھوپ، صبح، سحر، سویرا، دن، شام، رات، شب، تاریکی، اندھیرا، تیرگی، نیند، خواب ، تعبیر، چراغ، روشنی، سکوت، خامشی، سناٹا، گونج، شور، ہوا، آندھی، غبار، گرد، ذرہ، گائوں ، کھیت، فصل، بستی، شہر، آبادی، بھیڑ، اجنبی، تنہائی، بے حسی، بے دلی، آئینہ، عکس، تصویر، چہرہ، فصیل، حصار، گھر، مکان، مکین، دیوار، چھت، دروازہ، دریچہ، کھڑکی، دہلیز، دستک، آنگن، صحن، عمارت، تعمیر، سیڑھی، سلسلہ، دشمن، فوج، لشکر، جنگ ، لڑائی، زخم، لہو، تلوار، خنجر، حادثہ، سانحہ، قبر، تربت، زمانہ، صدی، لمحہ، وقت، سفر، مسافر، رستہ، رہ گزر، سرائے، مہمان، مہمان سرا، قافلہ، مسافت،تھکن،بدن، لباس،ملبوس،روح،گناہ، جرم، سزا، دعا، راز، زنجیر، قید، کاغذ ، کتاب، لفظ، خرف، خبر، اشتہار، اخبار‘‘(جدید اردو غزل کی لفظیات، مشمولہ زبان و ادب، ص190)
جدید غزل کے جو نمائندہ شعرا ہیں ان میں ناصر کاظمی، احمد مشتاق، منیر نیازی، ظفر اقبال، شہریار، بانی، زیب غوری، عرفان صدیقی وغیرہ بہت اہم ہیں۔ انھوں نے غزل میں بہت سے ایسے تجربے کیے جن کی بنیاد پر انھیں اعتبار اور امتیاز حاصل ہے۔ انھوں نے جن علامتوں کو اپنی شاعری میں وسیع تر معنیاتی تناظر میں استعمال کیا ہے ان میں شہر، جنگل، بستی، گھر، دشت، لہو، زہر، دھوپ، دریا، مکان، خواب، صحرا، ہوا، روشنی، سمندر، پیاس، ریت، سایہ، بیاناں، ندی،غبار، رات، شام وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ظفر اقبال ظفر نے بھی ان شاعروں کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے ۔ اس لیے ان کے یہاں بھی یہی لفظیات اور علامتیں بکثرت ملتی ہیں۔ لیکن ظفر اقبال ظفر نے ان لفظیات اور علامتوں کو اپنے زاویے سے اپنی شاعری میں برتا ہے اور کچھ نئے مفاہیم اخذ کیے ہیں۔ ظفر اقبال ظفر کے پیش رو اور معاصر شعرا نے جن لفظیات اور علامات کو کثرت سے استعمال کیا ہے ان میں سے بہت سی لفظیات اور علامات ظفر اقبال ظفر کے یہاں بھی ہیں۔ ان میں گھر ،سفر، سمندر، دشت، صحرا ،دریاوغیرہ قابل ذکر ہیں۔گھر ایک ایسی علامت ہے جسے تحفظ، آسائش اور عافیت کے طو رپر استعمال کیا جاتا ہے۔ ظفر اقبال ظفر کے یہاں جو گھر ہے وہ کرب و اضطراب اور بے سکونی سے عبارت ہے۔پتھر کا گھر، بے درو دیوار کا گھرجو اضطراب و انتشار ، آلام و آزارکا اشاریہ ہے۔ چند شعر ملاحظہ ہوں:
دے کے شیشے کا بدن پتھر کا گھر مجھ کو دیا
لمحہ لمحہ ٹوٹتے رہنے کا ڈر مجھ کو دیا
آندھیوں کے شہر میں رہنا تھا شاید اس لیے
بے در و ویوار کا رہنے کو گھر مجھ کو دیا
رہتا ہے روز و شب کسی آندھی کا ڈر مجھے
میرے بدن کو ریت کا گھر دے گیا ہے وہ
نئی ترکیب سے یہ گھر بنا ہے
دریچے ہیں نہ کوئی در بنا ہے
زندگی مجھ کو تھکا دیتی ہے گھر کے اندر
راہ دیتی ہے نہ یہ اذنِ سفر دیتی ہے
دشتِ امکاں کی طرح بے در و دیوار سہی
چھوڑ کر کیسے میں جاتا کہ مرا گھر ہی تو ہے
لگتا ہے مقدر میں میرے سایہ نہیں ہے
مدت سے سفر مَیں ہی ہوں گھر کیوں نہیں آیا
بکھری ہے ہر طرف یہاں اشیائے زندگی
لگتا ہے میرا گھر کوئی بازار ہو گیا
سفر بھی ان کے یہاں ایک علامت ہے اور اس کا استعمال ظفر اقبال ظفر کے یہاں مختلف زاویوں سے ملتا ہے۔قدیم شاعروں میں میر، سودا، درد، مصحفی، آتش، فانی، وحشت اور جدید شاعروں میں حفیظ ہشیار پوری، میرا جی، احسان دانش، شکیب جلالی، منیر نیازی، جمال احسانی، زبیر رضوی اور سلطان اختر کے یہاں سفر اور اس کے تلازمات کے متعلق بہت اچھے اشعار ملتے ہیں ۔ درد کا شعر ہے:
اے بے خبر تو آپ سے غافل نہ بیٹھ رو
جوں شعلہ یاں سفر ہے ہمیشہ وطن کے بیچ
نئے شاعروں میں شکیب جلالی یوں کہتے ہیں:
اُتر کے نائو سے بھی کب سفر تمام ہوا
زمیں سے پائوں دھرا تو زمین چلنے لگی
اسی طور کا ایک شعر ساقی فاروقی کا بھی ہے :
مجھے خبر تھی مرا انتظار گھر میں رہا
یہ حادثہ تھا کہ میں عمر بھر سفر میں رہا
ظفر اقبال ظفر کے یہاں بھی سفر ان ہی معانی اور مفاہیم میں استعمال ہوا ہے گو کہ سفر وسیلہ ظفر ہے مگر ظفر کے یہاں یہ اذیتوں، صعوبتوں سے عبارت ہے۔ اس تعلق سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
یہ کیسا سفر ہے کہ ہوا تک نہیں آتی
قدموں کی کہیں کوئی صدا تک نہیں آتی
مجھ کو تمازتوں کا سفر دے گیا ہے وہ
خوابوں کے پیرہن کو شرر دے گیا ہے وہ
گھوم پھر کر ہے اسی وادی غربت میں سفر
گردشِ وقت کا پیروں میں یہ چکر ہی تو ہے
سفر کا سلسلہ آخر کہاں تمام کروں
کہاں چراغ جلائوں کہاں قیام کروں
کہاں سے نکلوں کہاں سے سفر تمام کروں
ہر ایک رہ میں جدال و قتال ٹھہرا ہے
عجب طلسم سفر ہے کہ پائوں تھکتے ہیں
جو چل پڑے ہیں تو سائے میں بھی ٹھہرتے ہیں
اک عمر سرابوں کے سفر میں میری گزری
اک عمر سے آنکھوں نے سمندر نہیں دیکھا
ایڑیاں میری اگلتی ہیں لہو
کیسی راہوں کا سفر آیا ہے
زندگی بھر سفر میں رہنا ہے
کب ہمیں اپنے گھر میں رہنا ہے
سمندر دریا بھی ایک علامت ہے۔ جو قدیم اور جدید دونوں شاعروں کے یہاں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ بانی کا ایک شعر ہے:
عجب نظارہ تھا بستی کا اس کنارے پر
سبھی بچھڑ گئے دریا سے پار اترتے ہوئے
ظفر اقبال ظفر نے سمندر اور دریا کو مختلف سیاق و سباق میں استعمال کیا ہے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے جس سے سمندر اور دریا کی علامتی معنویت واضح ہوتی ہے:
دریا دریا میں پھرا تشنہ لبی لپٹی رہی
میرے قدموں سے ہمیشہ ریت ہی لپٹی رہی
صحرا کی طرف ہے نہ سمندر کی طرف ہے
رخ ساری بلائوں کا میرے گھر کی طرف ہے
چلتے چلتے اس نے رستہ چھوڑ دیا
جانے کیسی پیاس تھی دریا چھوڑ دیا
اتنے سراب دیکھے ہیں آنکھوں نے عمر بھر
دریا بھی اب نگاہوں میں دریا نہیں رہا
ہر قدم پر ریت کا دریا بچھایا جائے گا
پھر ہماری پیاس سے پہرا اٹھایا جائے گا
ہے دشت میں سراب بھی چاروں طرف مرے
سیراب کرنے والا سمندر چلا گیا
دریا میں رہ کے میں نے گزاری تمام عمر
لیکن ہوا نہ دور میری تشنگی کا کرب
خود تو پیاسا رہوں اور پیاس بجھائوں سب کی
زندگی کا میں وہ بہتا ہوا دریا ہو جائوں
نائو کاغذ کی سمندر سے نکل آئی ہے
ایک کہانی اسی منظر سے نکل آئی ہے
آخری الذکر شعر پڑھ کر علی الدین نویدکا یہ شعر یاد آ جاتا ہے:
کاغذ کا ایک نائو بناتا ہوں شام تک
کالے سمندروں میں بہاتا ہوں رات بھر
دشت و صحرا بھی ایک ایسی علامت ہے ۔ جس کا قدیم و جدید شاعری میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ آبرو، میر، میر سوز، آتش، غالب، فانی اور اصغر کے یہاںدشت و صحرا کی جو علامتی معنویت ہے کچھ تبدیلیوں کے ساتھ شکیلب جلالی، منیر نیازی، زیب غوری، وقار خلیل، شاذ تمکنت کے یہاں بھی ملتی ہے۔ آتش کا ایک شعر ہے :
وحشت دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا
سینکڑوں کوس نہیں صورتِ انساں پیدا
جدید شاعر وقار خلیل کہتے ہیں:
ساتھ ہے اک دشت تنہائی
گھر سے نکلو کہ اپنے گھر میں رہو
کچھ اسی طرح کی علامتی معنویتوں کے ساتھ دشت و صحرا اور اس کے تلازمات کا استعمال ظفر اقبال ظفر کے یہاں بھی ملتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
ہم اپنی تشنگی کیسے بجھائیں
جو دریا تھا وہ اب صحرا ہوا ہے
ہر ایک سمت تھا تنہائیوں کا اک صحرا
کہ کس دیار میں لے آیا ہے سفر مجھ کو
راہ میں تھا کوئی سایہ نہ شجر تھا کوئی
ہم تو تپتے ہوئے صحرا کا سفر رکھتے تھے
صحرا کی مسافت میں شجر کیوں نہیں آیا
مانگی تھیں دعائیں تو اثر کیوں نہیں آیا
پس صحرا کوئی صحرا نہیں تھا
نشاں پھر بھی کوئی ملتا نہیں تھا
عمر گزری ہے مسائل کے گھنے جنگل میں
راستہ مجھ کو ملا ہی نہیں آسانی کا
ظفر اقبال ظفر کی شاعری میںوہی انسانی جذبات و احساسات ہیں جن سے شب و روز ہر فردِ بشر گزرتا ہے ۔ ان کے الفاظ ان کے احساس سے مکمل طور پر ہم آہنگ نظر آتے ہیںاور شاعری میں بھی انھوں نے جن استعارات کا استعمال کیا ہے وہ آج کی زندگی سے مربوط ہیں۔ در اصل یہ استعارے نہیں ان کی داخلی شکست و ریخت کا اشاریہ ہیں۔ ہر لمحہ ٹوٹتی بکھرتی زندگی کا عکس ہے ۔ ان کی شاعری میں انسانی زندگی کے تمام تضادات اور تناقضات بھی در آئے ہیں۔
ظفر اقبال ظفر کی شاعری کا فطرت سے بہت گہرا رشتہ ہے ان کے بیشتر شعر ان کے وجودی، ذہنی اور جذباتی کیفیتوں کا اظہار ہیں۔ ان کی زندگی جس شکل، جس کرب، جس المیے، جس اضطراب ، جس انتشار اورجس درد سے گزری ہے وہی ساری کیفیتیں ان کی شاعری میں ڈھل گئی ہیں اس لیے ظفر اقبال ظفر کی شخصیت کی تفہیم کے لیے ان کی شاعری سے بڑا کوئی حوالہ نہیں ہے۔یہ پورے طور پر ان کے وجود کا انعکاس ہے ۔یہ ان کی ذات اور ذہن کا تخلیقی مظہر ہے۔
haqqanialqasmi@gmail.com
Cell:9891726444
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں
1 تبصرہ
بہت ہی عمدہ اور بہترین پیش کش رہی جناب شکریہ بڑی مہربانی آپ کی.