(انٹرویو)
(حصہ اول)
اکرم نقاش : ابتدا میں آپ کو اختر الایمان کی طرح خالص نظم گو شاعر سمجھتا تھا۔ بعد میں یہ انکشاف ہوا کہ آپ نے شاعری کی ابتداء غزل سے کی تھی اور ادھر پچھلے کچھ عرصہ سے آپ کی غزلیں بھی منظر عام پر آئیں۔ بلکہ غزلوں کا پہلا مجموعہ نشاط غم ، کچھ سال پہلے شائع ہوا اور اس سال آپ کی غزلوں کا دوسرا مجموعہ ’’ سانسوں کے پار‘‘ بھی سامنے آیا۔ غزل سے نظم کی طرف اور پھر نظم سے غزل کی طرف مراجعت کے کیا اسباب ہیں؟
خلیل مامون : کوئی شاعر کسی خاص صنف سے ہی جڑانہیں ہوتا وہ کسی بھی صنف میں طبع آزمائی کر سکتا ہے۔ کسی بھی شاعر کو کسی خاص صنف سے وابستہ کر کے دیکھنا صحیح نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ میں نے زیادہ تر نظمیں ہی کہی ہیں اور میری پسندیدہ صنف سخن آزاد نظم ہی ہے لیکن اتفاق سے میری شاعری کی شروعات غزل ہی سے ہوئی ہے۔ ( گو کہ اس صنف پر میں سوفی صد دسترس رکھتا ہوں ایسا کوئی گمان مجھے نہیں ہے۔) یہ زمانہ ’’نشاط غم‘‘ ہی نہیں بلکہ میری سب سے پہلے شائع ہونے والی نظم ’’سانحہ‘‘ سے بھی پرانا ہے۔’’ سانحہ‘‘ غالباً 1972 میں ’’تحریک‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔ اس سے بہت پہلے میری کئی غزلیں روز نامہ ملاپ ، دلی میں شائع ہو چکی تھیں۔ اس وقت میں اعزاز تبسم کے نام سے لکھتا تھا اور شمیم کرہانی سے اصلاح لیتا تھا۔ میں نے حقیقتا 1965 ء سے ہی غزلیں کہنا شروع کر دیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میں بہ طور اسٹاف آرٹسٹ آل انڈیا ریڈیو دلی سے جڑا تھا۔ اس وقت ریڈیو میں سلام مچھلی شہری کے علاوہ رفعت سروش، پریم ناتھ در اور ساغر نظامی بھی کام کر رہے تھے۔
شروع میں جب میں نے ایک آدھ غزل سلام مچھلی شہری کو دکھائی تو انھوں نے پوری غزل کاٹ کر اک نئی غزل خود لکھ کر دے دی۔ غالباً ان کے لیے یہ کام نسبتاً آسان تھا، سلام مچھلی شہری بنیادی طور پر غزل کے شاعر نہیں تھے لیکن ان میں بلا کی موزونیت تھی۔ مجھے یاد ہے کہ لال بہادر شاستری کے انتقال پر انھوں نے صرف دو گھنٹوں میں پورا آدھے گھنٹے کا منظوم فیچر لکھ کر دے دیا تھا ، اس کے کچھ عرصہ بعد بسمل سعیدی ٹونکی کے ایما پر میں نے شمیم کرہانی سے اصلاح لینی شروع کر دی۔ اس دوران نشستوں کے علاوہ میں نے کچھ مشاعرے بھی پڑھے۔ نظم نگاری کی طرف میں 1971ء میں متوجہ ہوا۔ ہوا یوں کہ میں بہ ذریعہ ریل دہرہ دون جار ہا تھا اور پرانی دلی ریلوے اسٹیشن پر تھا۔ بک اسٹال میں ’’شب خون‘‘ نظر آیا تو خرید لیا۔ اس میں شائع کچھ نظمیں پڑھیں تو دل میں یہ خیال آیا کہ اگر فن شاعری یہ ہے تو میں بھی ایسی شاعری کر سکتا ہوں۔ اس واقعہ کے بعد میں نے غزلیں کہنا ہی چھوڑ دیا۔ ’’ نشاط غم‘‘ 2000 تا 2001 کے دوران لکھی گئی غزلوں کا مجموعہ ہے۔ اس زمانہ میں میں ایک بہت ہی خطرناک قسم کے بحران کا شکار تھا۔ اس کو دور کرنے کے لیے رات بھر جاگ جاگ کر میں نے یہ غزلیں کہیں۔ لیکن نشاط غم کے زمانے تک میری ڈھیر ساری نظمیں جمع ہوگئی تھیں، بہت سے لوگوں کے اصرار کے باوجود میں نے نظموں کا مجموعہ شائع نہیں کیا۔ اس کی کوئی واجب وجہ بھی نہیں تھی۔ بالآخر یہ نظمیں’’ آفاق کی طرف‘‘ میں شائع ہوئیں 2009 میں۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں’’ سانسوں کے پار ‘‘میں موجود غزلیں کچھ خاص شعری وجوہ کی بنا پر لکھی گئیں جن کی تفصیل آپ کو ’’غزل کی نفی میں‘‘ مل سکتی ہے۔
اکرم نقاش : ’’غزل نیم وحشی صنف سخن ہے‘‘ کی بنیاد کلیم الدین احمد نے اس بات پر قائم کی ہے کہ غزل کے شعروں میں ربط نہیں ہوتا، ارتقائے خیال نہیں ہوتا اور غزل میں کوئی مکمل تجربہ بیان نہیں ہوتا جو نظم کی خصوصیت ہے اس لئے وہ غزل کے شعر کو نظم نہیں کہتے ۔ غزل کے کسی شعر کو نظم نہ کہنا اپنی جگہ لیکن ایک صنف کا مقابلہ دوسری صنف سے کہاں تک مناسب ہے؟
خلیل مامون : کلیم الدین احمد کی یہ بات صحیح ہے کہ غزل کا شعر نظم نہیں ہوتا۔ غزل کے شعر کی ہیئت محض اک عکس کی سی ہے جو اپنی جھلک دکھلا کر غائب ہو جاتا ہے۔ اسے آپ اندھیرے میں جگنو کی چمک سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔ شعر کا کوئی عمودی ارتقا نہیں ہوتا۔ شعر کی ہیئت زیادہ سے زیادہ ایک بیان ، ایک فقر ہ یا ایک مظہر کی ہی ہے۔ جو لگتا ہے کہ اس چھوٹے سے مظہر میں کوئی کہانی کوئی داستان پوشیدہ ہو لیکن نظم ایسی نہیں ہوتی۔ شعر ہمیشہ ایک غیر توضیحی قول کے مترادف ہے۔ اس کی ساخت ہی ایسی ہے کہ جو اپنی ہیئت سے بندھا ہوا ہوتا ہے اور اس سے آگے نہیں جا سکتا ہے نہ پیچھے بلکہ نظم مختصر ہوتے ہوئے بھی توضیحی اور توصیفی ہو سکتی ہے۔ جو فرق قول اور تفصیلی بیان میں ہو سکتا ہے وہی فرق نظم اور شعر کا ہے۔ نیز ہر صنف کا فلسفہ الگ ہوتا ہے یہاں فلسفہ سے مراد وہ تعریف اور توضیح ہے جو صنف کی اختراع یا شروعات کے وقت اُسے دی گئی ہو۔ جیسے غزل کے بارے میں یہ بیان کہ یہ معشوق سے گفتگو کرنا ہے وغیرہ وغیرہ۔ غزل یا نظم لکھتے وقت لاشعوری سطح پر فلسفہ تو کسی بھی شاعر کے ذہن میں ہونا لازمی ہے لیکن اس کے باوجود دو یا تین مصرعوں کی مختصر نظم کو ہم غزل کے شعر کے ہم پلہ کہہ سکتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ غزل اور نظم کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا، اس لیے موازنہ بڑی حد تک صحیح نہیں ہے ۔ ہر صنف کے فنی تقاضے الگ ہیں۔ لہذا غزل اور نظم کے شعری وفنی تقاضے بھی الگ ہیں۔
اکرم نقاش : آپ کی بیش تر نظمیں احتجاج طنز اور استہزا کی شدید غمازی کرتی ہیں اس کے برخلاف آپ کی غزلیں اس صورت حال سے دو چار نہیں کرتیں جب کہ غزلوں میں ایک زیریں حزنیہ لے اور رومان کو صاف طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے ایک فن کار شاعری ہی کی مختلف اصناف میں اس حد تک مختلف کیوں کر ہو سکتا ہے ۔ کیا یہ صنفی تقاضے ہیں ، غزل کی روایت کا اثر ہے یا کچھ اور ؟
خلیل مامون : یہ صنفی تقاضوں کی وجہ سے بھی ہے اور غزل کی روایت کے اثر کے سبب سے بھی۔ میری نظمیں چوں کہ آزاد ہیں اور میں ان کے اظہار میں آزاد ہوں لہذا کسی شعری یافتی حدود کے تابع نہ ہوتے ہوئے میری نظموں میں احتجاج ، استہزا اور طنز کھل کر سامنے آتے ہیں۔ میں اپنے اظہار کو جس سمت چاہے موڑ سکتا ہوں اور جہاں چاہے اُسے مروجہ آہنگ سے تو ڑ بھی سکتا ہوں ۔ اس طرح نظموں میں اپنے غم وغصے کا اظہار میرے لیے آسان ہے۔ جب کہ غزلوں میں، میں ردیف ، قافیے اور بحر کا اسیر ہوں ۔ کہیں کہیں تو میرے یہاں جیسے آپ نے اور جینت پر مار نے اشارہ کیا ہے میری غزل کی بحر بھی بدل جاتی ہے۔ ’’سانسوں کے پار ‘‘میں تو ایک غزل میں مقطع کا قافیہ ہی بدل گیا۔ ظاہر ہے ایسی باتوں پر میرے حریف جن کی تعداد بہت زیادہ ہے مجھ پر اور میرے فن پر ہنسیں گے کہ یہ غلطیاں میرے یہاں دانستہ نہیں ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ غزل بحر میں ہے لیکن وہ بحر سے اتر جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ بحریں ہی ایسی ہیں کہ جو شاعر کی ’’ ماتراؤں‘‘ کو پرکھتی ہوں۔ اس کے علاوہ میں غزل کی روایت کا بھی قیدی ہوں میں روایت کی حدود توڑ کر باہر نہیں آسکتا ۔ میرا اظہار ہی کیا ہر کسی کا اظہار بھی غزل میں محدود ہے۔ نظم کی صنف جو آزادی مجھے دیتی ہے وہ غزل نہیں دیتی۔ میرے لیے میری نظم میری شخصیت اور ذات کی توسیع کے مترادف بھی ہے۔ بڑی حد تک یہ بات ہر شاعر پر صادق آتی ہے۔ شاعر کوئی دست کار نہیں ہے کہ جو اپنی صناعی سے اپنی ذات سے الگ ہو کر مورتیاں بنائے۔ کبھی شری گنیش جی کی تو کبھی عیسی مسیح اور کبھی شیر اور بکری کی یکسانیت ، ذات وصفات کی یکسانیت تاہم آپ ’’آفاق کی طرف ‘‘سے لے کر ’’سرسوتی کے کنارے‘‘ تک کی نظموں کا مطالعہ کریں تو آپ کی بات صحیح نہیں معلوم ہوگی ۔ ’’جسم و جاں سے دور‘‘ کی نظمیں الگ ہیں۔ جیسے’’ میں گواہی دیتا ہوں‘‘ ، ’’عمر عزیز گنوا کر ‘‘،’’وہ عورت‘‘، ’’ اردو بازار‘‘ وغیرہ اسی طرح ’’بن باس کا جھوٹ میں ‘‘، ’’میں آرہا ہوں‘‘، ’’ وہ‘‘، ’’ کچرا ڈھونے والی گاڑی‘‘، ’’ڈنی کی موت پر‘‘، ’’ ایک بے کار نظم‘‘ وغیرہ اسی طرح ’’سرسوتی کے کنارے میں‘‘، ’’دلی جو ایک شہر تھا‘‘، ’’ کتے ‘‘، ’’نیا راستہ‘‘، ’’ سمراٹ اشوک کا گیت‘‘، ’’دفاع‘‘، ’’ محمود غزنوی کے نام‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ نظمیں بالکل اس طرح سے الگ ہیں جیسے میں آج سے 30 سال قبل یا آج سے ایک ماہ پہلے الگ تھا۔ میری زندگی وہ نہیں ہے جو کل تھی اور نہ آئندہ یکساں رہے گی۔ میں ، میرے احساسات، میرے خیالات اور میری فکر اور میرے اطراف کی اور پھر اندر کی دنیا مستقل طور پر تغیر پذیر ہیں ۔ اسی لیے میرے موضوعات میں بے انتہا تنوع ہے کیوں کہ میں نظم لکھتے ہوئے صرف لفظی بازی گری نہیں کر رہا ہوتا ہوں لہذا میری نظموں میں یکسانیت کا الزام میرے نزدیک ایک سطحی مشاہدہ ہے۔ میرے نزدیک کسی بھی شاعر کے ہاں ہیئت اور مواد کی یکسانیت صحیح نہیں ہے۔ اسلوب کی یکسانیت اس اعتبار سے صحیح ہے کہ اسلوب شخصی اظہار کا حصہ ہے یہ بات کسی بھی بڑے شاعر کے یہاں دیکھی جاسکتی ہے مثلا میر، غالب، اقبال اور ہمارے زمانے میں میراجی ، راشد، فیض ، ناصر کاظمی اور ظفر اقبال کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ آپ کسی ایک کا شعر یا نظم پڑھیے میں بتادوں گا کہ کس کی نظم یا کس کا شعر ہے۔ کیا آپ اسے یکسانیت کہیں گے۔ نہیں، یہ شخصیت کا پر تو ہے جو کسی ایک شاعر کی شناخت میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ میں نے کوئی بھی نظم کسی الگ ذاتی تجربہ اور مشاہدہ کے بغیر نہیں کہی ہے ۔ لہذا یکسانیت کی بات صحیح نہیں ہے۔
اکرم نقاش : میں نے آپ کے سلسلے میں صرف ہیئت ، اسلوب اور لہجے میں یکسانیت کی بات کہی ہے۔ موضوع اور مواد کا سوال عمومی ہے۔ خیر ۔
اکرم نقاش : غزل کے شاعر کے لیے پابند نظم معری و آزاد نظم کہنا کوئی مشکل کام نہیں ہے لیکن آزاد نظم کے مقابلے میں آپ نے نثری نظمیں زیادہ لکھی ہیں ۔ نثری نظم کے بارے میں آپ کے تاثرات جاننا چاہوں گا ؟
خلیل مامون : میں نے’’ آفاق کی طرف‘‘ تک آزاد نظمیں ہی کہی ہیں مطلب ایسی نظمیں جو کسی نہ کسی بحر میں ہوں ۔ اس مجموعہ میں نثری نظمیں بہت ہی کم ہیں۔ میری نثری نظموں کا سلسلہ’’ جسم و جاں سے دور ‘‘سے شروع ہوتا ہے جس طرح غزل میں شاعر ردیف و قوافی اور بحر کا شکار ہوتا ہے اُسی طرح آزاد نظم میں بھی شاعر بحر کا پابند ہو کر رہ جاتا ہے اور اُسے اظہار کی کلی آزادی نہیں ملتی۔ چوں کہ آزاد نظمیں بحر میں لکھی جاتی ہیں اس پر اس بحر کے ذریعہ روایت کی گرفت بھی ہوتی ہے اور اس میں شاعر اکثر بحر کے بہاؤ ہی میں اپنے اظہار کو تشکیل دے سکتا ہے جو الفاظ بحر میں وزن میں نہ آ سکے اور اظہار نہ پاسکے یہ سمجھئے کہ وہ خیالات بے کار گئے اور اس طرح شاعر بحر کے گھوڑے پر سوار بھاگتا رہتا ہے جہاں گھوڑا رکا و ہیں نظم ختم ہوئی۔ ہمارے یہاں نئی نظم اس اعتبار سے غزل ہی کی توسیع نظر آتی ہے۔ ن م راشد کی شاعری اسی طرح کی ہے۔ مواد کے اعتبار سے اہم ہوتے ہوئےبھی میں راشد کی نظموں کو نئی شاعری کی بہترین مثالیں تصور نہیں کرتا ، راشد کی شاعری میں اُس کا بلند آہنگ اور اظہار ہی اسے مقبول بناتا ہے جو اُن کے ہاں اقبال سے آیا ہے۔ نثری نظم شاعر سے کسی پابندی کا تقاضا نہیں کرتی ۔ سوائے ایک اندرونی اور بیرونی آہنگ کے اور شاعر کسی بھی نظم کی تخلیق میں بڑی حد تک آزاد رہتا ہے۔’’ آفاق کی طرف‘‘ کے بعد میں نے محسوس کیا کہ آزاد شاعری کے لیے بحور سے آزادی بہت ضروری ہے۔ لہذا میں نے نثری نظمیں لکھنا شروع کیں۔ یہ کام میں نے آسانی کے لیے نہیں کیا بلکہ اس شعری ضرورت کو سامنے رکھ کر کیا کہ یہاں میں اپنے آزادانہ اظہار کا تانا بانا بننے کے لیے آزاد ہوں۔ میری نظر میں اچھی نثری نظم لکھنا کوئی اچھی غزل لکھنے سے کہیں زیادہ مشکل کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی بہت کم لوگ اس صنف کی طرف مائل ہیں۔ لوگ شاعری کو موسیقی کے آہنگ ہی میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔
اکرم نقاش : آپ کا بنیادی ادبی سرو کار شاعری ہے لیکن آپ نے نثرکی طرف بھی توجہ کی ہے۔’’ لسان فلسفے کے آئینے میں‘‘ آپ کی کتاب اس وقت منظر عام پر آئی جب لسانیات کو فلسفہ کی نظر سے دیکھنے کی مثال ہندوستان میں شاید نہیں تھی ۔ آپ نے مختلف کتابوں پر تبصرے بھی کیے ہیں۔ آپ کے تبصرے معیاری ادب کا تقاضہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان تبصروں میں اچھے فن پاروں کی طلب کی دردمندی بھی محسوس کی جاسکتی ہے لیکن ان تبصروں کا لہجہ بڑا درشت اور جارحانہ لگتا ہے۔ اعتراضات تاثراتی زیادہ ہیں مدلل اور تجزیاتی کم ۔ کیا ہر فن کار اور ہر کتاب سے شاہ کار کے تقاضے مناسب ہیں؟
خلیل مامون : ہر کتاب سے شاہ کار کا تقاضا کرنا نہ صرف یہ کہ نامناسب ہے بلکہ صحیح بھی نہیں ہے۔ میرے تبصروں میں موجود جس شدت پسندی کا آپ ذکر کر رہے ہیں وہ صحیح ہے لیکن میں نے کسی بھی تبصرہ یا مضمون میں کسی شاہ کار کی توقع کا اظہار نہیں کیا ہے۔ میں نے صرف بنیادی باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ میری تنقید کی تحریر ناپ تول کی تحریر نہیں ہے۔ یہ کام تو بہت سے نقادوں نے کیا ہے۔ میں کوئی پیشہ ور نقاد بھی نہیں ہوں اور اگر میری تنقید تاثراتی ہے تو اس میں برائی کیا ہے۔ یہ عمل عروض کے پیمانوں پر تقطیع کا عمل نہیں ہے کہ میں یہ بتاؤں کہ کہاں کون سا لفظ گرتا ہے یا زیادہ ابھرتا ہے۔ میری تنقید یا تبصرہ کا جو ہر میرا تاثر ہے تو اس میں غلط بات کیا ہے۔ میں اپنے وجدان و عرفان سے سے اشیا کو سمجھتا ہوں۔ ادب تو محسوس ہی کیا جانے والا معاملہ ہے اچھا محسوس ہوا تو میں نے اچھا کہا، برا محسوس ہوا تو میں نے برا کہا۔ صحیح یا غلط قرار دینا اسی احساس سے جڑا ہوا عمل ہے۔ ہر فن کار اور ہر کتاب سے شاہ کار کا تقاضا نہیں ہے۔ بلکہ ہر ایک سے اتنا مطالبہ ضرور ہے کہ وہ ادب کے بنیادی تقاضے ضرور پورا کرے۔ کوئی الف، ب ، ت میں ہو تو اسے یہ بتانا کیا شدت پسندی ہے۔ ویسے یہاں میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ شدت پسندی ہی نہیں درشتگی بھی میری شخصیت کا حصہ ہے۔ علم نجوم کے مطابق میری شخصیت میں ایک عنصر ہے جسے’’ وبا گھٹا‘‘ کہا جاتا ہے میری بات میں ہزار نیک نیتی ہو لیکن سننے والا اسے درشت اور سخت ہی کہے گا ممکن ہے کہ یہ عنصر ہی ادب کے’’ دادا ازم‘‘ کی ہی کوئی چھوٹی موٹی صورت ہو۔ بہ ہر حال مجموعی طور پر اگر نئے لکھنے والوں کو یہ نہ بتایا جائے کہ وہ جو کر رہے ہیں وہ صحیح نہیں ہے وہ آگے چل کر اچھے ادیب کیسے بنیں گے اور شاہ کار ادب کیسے پیدا کریں گے۔ خصوصاً ایسے ماحول میں جب صحیح اور غلط کی تمیز ہی مٹ گئی ہو اور جو کچھ لکھا جاتا ہے چھپ جاتا ہے۔ میں آج شائع ہونے والے کئی پرچوں میں شائع ہونے والی تخلیقات کی جانب آپ کی توجہ مبذول کراسکتا ہوں کہ جن کا سر پیر کچھ بھی نہیں ہے۔ معیار اور اسلوب تو سب دور کی باتیں ہیں۔ یہ باتیں آج کے ادب کے کاروبار کا حصہ ہیں جہاں رسالہ کی مارکیٹنگ اہم ہے جس کے پیش نظر مدیروں نے کوئی معیار برقرار ہی نہیں رکھا ہے۔
اکرم نقاش : آپ محکمہ پولس کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے صحافت سے بھی آپ کا تعلق رہا اور ادبی صحافت سے بھی آپ کی دل چسپی آپ کے جاری کردہ رسالوں سے ظاہر ہے آپ نے انگریزی میں بھی ایک رسالہ جاری کیا تھا لیکن یہ سب سلسلے مستقل نہیں ہو پائے اور ان میں تواتر کی بھی کمی رہی ایسا کیوں؟
خلیل مامون : پولس کی نوکری میری معاشی مجبوری تھی لیکن اس مجبوری کے باوجود میں نے اپنی نوکری کے دوران دوبار حکومت کو اپنا استعفیٰ روانہ کر دیا تھا۔ پہلی مرتبہ 1998 میں جب حکومت نے ترقی دے کر مجھے ڈی آئی جی ( انتظامیہ ) مقرر کیا۔ پھر میرے ڈی۔ جی نے مجھ پر یہ حکم صادر کیا کہ میں آسامی کا چارج نہیں لے سکتا۔ یہ آسامی خاصی اہم اس وجہ سے تھی کہ اس میں پولیس کے بڑے عہدوں یعنی انسپکٹر سے لے کر آئی ۔ جی۔ پی اور ڈی ۔ جی ۔ پی کا تقرر ہوتا تھا۔ نیز تمام خفیہ معاملات یعنی افسروں کی سالانہ رپورٹ وغیرہ سے اس کا تعلق تھا ، جب میں نے اس پر احتجاج ظاہر کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تو محکمہ میں تہلکہ مچ گیا اور میرے ایک آئی ۔ جی ۔ پی دوست نے جن کا نام شرت سکسینہ ہے۔ بیچ بچاؤ کر مجھے سمجھا بجھا کر استعفیٰ واپس لینے پر مجبور کیا اور مجھے اس عہدہ کا چارج لینے کی اجازت دی گئی۔ میں نے اس عہدہ پر 10 دن کام کیا اس کے بعد مجھے ڈی۔ آئی۔ جی (صدر دفتر ) کا حکم نامہ دیا گیا ۔ یہ آسامی بھی اہم تھی مگر اتنی نہیں جتنی پہلی والی ۔ اس کے بعد پھر جب میری ترقی کی باری آئی تو ڈی جی نے پھر میری مخالفت کی اور میں نے استعفیٰ دے دیا۔ اس بار میرا استعفیٰ قبول ہونے کو تھا کہ میرے اڈیشنل ڈی۔ جی جناب بور کر کے اصرار پر واپس لینا پڑا۔ یہی حال رسالوں کا ہے اس میں تجربی مشکلات بھی ہیں ہمارا نظام بھی ہے کہ جس میں کوئی آدمی آپ کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں کام کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ سب پکی پکائی روٹیاں کھانا چاہتے ہیں۔ مجلس ادارت میں اپنا نام چاہتے ہیں کوئی نہ کام کرنا چاہتا ہے نہ ہی اشتہارات کی صورت میں کوئی مددفراہم کرنا چاہتا ہے۔ میں ایک بار غفار شکیل کی چیرمین شپ کے زمانے میں اُردوا کا دمی سے احتجاج کرتے ہوئے مستعفی ہو چکا ہوں ۔ اسی طرح قومی کونسل برائے فروغ اردو اور مرکزی ساہتیہ اکادمی کی مشاورتی کمیٹی سے بھی ۔ میں زندگی اپنی من مرضی سے ہی جیا ہوں کوئی چیز کبھی پسند آتی ہے لیکن اندرون خانہ بڑی بھیا نک صورتیں ابھرتی ہیں تو جی اُچٹ جاتا ہے اور میں ایسے لوگوں سے اور ایسے اداروں سے الگ ہو جاتا ہوں۔ میں تو سکہ بند نظریات اور اعمال اور کمپرومائزز کا عادی نہیں ہوں۔ میں اس بارے میں بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں۔
اکرم نقاش : آپ محمود ایاز کے بہت قریبی احباب میں شمار کئے جاتے ہیں آپ سوغات کے معاون بھی رہے آپ نے کہیں لکھا ہے کہ محمود ایاز سے آپ کے تعلقات کی نوعیت Love and Hate کی سی رہتی ہے ان سے آپ کی چاہت کی وجوہات کیا تھیں اور ان سے گریزاں رہنے کے اسباب کیا تھے؟
خلیل مامون : یہ کہنا کہ مجھے محمود ایاز سے چاہت تھی سو فی صد صحیح نہیں ہے۔ کیوں کہ محمود ایاز کتنے ہی اچھے ادیب کیوں نہ ہوں کا روباری آدمی تھے اس کے علاوہ اپنے اور اپنے خاندان والوں کے آگے کسی کو کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ یہ بات میں اُن کے بیانات کے آئینہ میں کہہ رہا ہوں ۔ مثال کے طور پر ایک بار انھوں نے خلیل الرحمن اعظمی کو بیٹے کے لیے لکھی گئی ایک بہت اچھی نظم سنائی اور اُس کے بعد کہا نہ جانے اب وہ بیٹا کہاں پڑا ہو گا ۔ کئی بار اپنے کچھ دوستوں کے بارے میں جو بلانوش تھے بات کی اور کہا دیکھو وہ اب کہاں پڑے ہیں۔ ( قبر کی طرف اشارہ ) میں دیکھو احتیاط کرتا ہوں ۔ انھیں ایک طرح سے اپنی عقل فہم پر بے جا ناز تھا۔ لیکن قدرت نے انھیں ایسی جگہ پکڑا جہاں سے وہ پلٹ کے آنہ سکے۔ یہ سب باتیں مجھے پسند نہیں تھیں۔ اس کے علاوہ سالار میں ملازمت کے دوران انھیں میں بھگت چکا تھا۔ وہاں ہمارے تعلقات مالک اور نوکر ہی کے تھے۔ چوں کہ سوغات اچھا رسالہ تھا میں نے اور عزیز اللہ بیگ نے ان پر زور ڈالا کہ وہ سوغات نکالیں ۔ سوغات کے تیسرے دور میں رسالہ کے لیے سارے کے سارے اشتہار میری کوششوں سے ملے ۔ ہر ہفتہ محمود ایاز ہمیں کھانے پر بلایا کرتے تھے، قربت کی بس یہی اک وجہ تھی۔
اکرم نقاش : محمود ایاز ایک کامیاب مدیر اچھے شاعر اور صاحب نظر نقاد تھے مجموعی طور پر آپ محمود ایاز کی شخصیت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کے ادبی نظریات اور ان کی فکر کے بارے میں آپ کیا سو چتے ہیں؟
خلیل مامون : محمود ایاز ایک بہت ہی اچھے مدیر اور صاحب نظر آدمی تھے۔ میں انھیں نقاد نہیں کہوں گا لیکن زندگی اور ادب کا اُن کا مطالعہ بہت اچھا تھا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہندو پاک کے لکھنے والوں میں ان جیسا دیانت دار آدمی آپ کو ڈھونڈے سے نہیں ملے گا۔ میں انھیں اوسط درجہ کا شاعر تصور کرتا ہوں ۔ شاید اسی لیے اُن کے مجموعہ کلام ’’نقش بر آب ‘‘کی پذیرائی نہیں ہوئی وہ ایک کلاسیکی ذہن رکھتے تھے لیکن ادب میں تغیر و تبدل کے خلاف نہیں تھے فن پاروں کی جانچ میں اُن کا ذہن غیر متعصب تھا اور یہ ہمارے آج کے ادب میں بڑی بات ہے۔ انھوں نے ادب کے بل بوتے پر سرکار سے یا قارئین سے کوئی نا جائز مطالبہ نہیں کیا نہ ہی اپنی شخصیت کے فروغ کے لیے اردو اکادمی کو استعمال کیا جس کے وہ تین بار صدر رہ چکے تھے۔ کئی پبلشنگ گھروں سے بار ہا اصرار کے باوجود انھوں نے اپنا مجموعہ نہیں چھپوایا۔ محض اس وجہ سے کہ وہ ان لوگوں سے کتا بیں اکادمی کے لیے خریدتے ہیں۔ ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو 9 برسوں میں ان کی کم از کم 20 کتابیں تو چھپ گئی ہوتیں ۔ وہ مجھے بے حد چاہتے تھے لیکن ان کی موت سے تقریباً ایک سال پہلے ڈرامہ کے تعلق سے میرے اور ان کے درمیان تلخی پیدا ہوگئی اور میں نے تعلقات منقطع کر دیے۔ لیکن جب انھیں کینسر تشخیص ہوا تو انھوں نے مجھے کہلا بھیجا اور میں اُن سے ملنے اسپتال گیا اور یہ سلسلہ ان کی موت تک جاری رہا۔
اکرم نقاش : ایک بہت ہی شخصی سوال کہ آج بیش تر لوگ کمپرومائزکو زندگی کی اہم قدر مانتے ہیں اور کچھ لوگ اس کے بر خلاف سوچتے ہیں لیکن موخر الذکر کی مثالیں کم ہیں۔ شخصی طور پر میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ لوگوں سے آپ کے مراسم دیر پا نہیں رہ پاتے ۔ کوئی مخلص اچانک آپ سے بے حد قریب ہو جاتا ہے اور اسی رفتار سے منظر سے غائب بھی ہو جاتا ہے ایسا کیوں؟
خلیل مامون : زندگی میں رشتوں ناطوں ، دوستی اور میل ملاپ کا انحصار با ہمی یقین اور محبت پر ہوتا ہے۔ جب آپ کسی سے محبت کرتے ہیں تو اُس کی تمام تر اچھائیوں اور برائیوں کو تسلیم کر کے اُس سے محبت کرتے ہیں۔ میرے یہاں دوستی اور میل ملاپ بھی اسی کسوٹی پر پر کھے جاتے ہیں۔ میں اپنا مطلب نکال کر کسی کو اپنے سے دور نہیں کرتا بلکہ جب دوسروں کی نیتوں میں کھوٹ دیکھتا ہوں تبھی اُن سے کنارہ کش ہو جاتا ہوں اور اُن سے رسمی گفتگو اور بات چیت بھی بند کر دیتا ہوں۔ میں چائے خانے یا کافی ہاؤز کی دوستی کا قائل نہیں ہوں۔ میں پہلے یہ مانتا تھا کہ دل سے دل کو راہ ہوتی ہے لیکن آج سوچتا ہوں کہ یہ سب باتیں بکواس ہیں۔ دنیا اور ہمارے سماج میں میل ملاپ ، دوستی ، پیار محبت بھی کا دارو مدار روپئے پیسے اور اثر ورسوخ سے ہے محبت اور معیار کی کوئی قدر نہیں ہے۔ آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ آج میرا کوئی دوست تو دور کی بات ہے ملنے والا بھی نہیں ہے اور اس طرح میں ہر تعلق سے آزاد ہوں۔ کچھ تعلقات مرتے دم تک نبھانے پڑتے ہیں سو نبھا رہا ہوں۔
اکرم نقاش : قلندری بے نیازی اور دنیا داری دو متضاد صفات ہیں میری آنکھیں اس خلیل مامون کو بھی دیکھتی ہیں جو دنیا کی رفتار و تقاضوں سے ہم آہنگ ہے اور میں اس خلیل مامون کو بھی دیکھتا ہوں جو قلندر صفت معصومیت سے بھر پور اور دنیا کی چکا چوند و کشش سے بے نیاز ہے کیا آپ میرے اس خیال سے اتفاق کریں گے؟
خلیل مامون : آپ کا یہ مفروضہ کہ میں دنیا کی رفتار اور تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں صحیح نہیں ہے۔ ممکن ہے دیکھنے والوں کو ایسا لگتا ہوگا کہ میں ہم آہنگ ہوں ۔ ایسا نہیں ہے اگر اتفاق سے کہیں پھنس بھی جاؤں تو بہت جلد اپنے گلے سے پھندہ نکال کر پھینکتا ہوں میں بڑی حد تک دنیا اور اس کے معاملات سے بے نیاز ہوں لیکن آپ جانتے ہوں گے کہ بشریت کے تقاضوں سے کوئی سوفی صد بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ اس کا مجھے قلق ہے۔ ہمیشہ مجھے یہ افسوس ہوتا ہے کہ ایسی زندگی گزارنی پڑ رہی ہے کہ یہاں کئی چیزوں کا انحصار دوسروں کے فیصلہ جات اور دوسروں کے واسطہ پر مبنی ہے۔ اس کے علاوہ مجھے انسان کی بے بسی پر بھی ترس آتا ہے۔ یہ دیکھ کر سب فلسفے سب مذاہب اور سب علوم بے کار معلوم ہوتے ہیں۔
(جاری)
نوٹ: اس مکاملے کو اکرم نقاش کی کتاب’’خانہ تکلم‘‘ سے لیا گیا ہے
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں