(انشائیہ)
مہر فاطمہ
ریسرچ اسکالر
دہلی یونیورسٹی
meharekta004@gmail.com
ابھی کچھ دن پہلے میں نے فیس بک پر ایک اشتہار دیکھا جس میں لکھا تھا ’’اب ہمارے یہاں نسخہ ہائے وفا بھی پاکٹ سائز میں دستیاب ہے‘‘۔ ’’نسخہ ہائے وفا ‘‘ پڑھتے ہی مجھے اپنے ساتھ ہو ایک حادثہ یاد آگیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کر رہی تھی اور عبد اللہ ہال میں رہتی تھی۔یہ زمانہ 2011 سے 2014تک کا ہے۔اس وقت وہاں اندر میں ایک ہی لائبریری تھی جبکہ کل سات ہاسٹل تھے،اس حساب سے وہ اکلوتی لائبریری کافی چھوٹی بھی تھی ،جس میں اردو کی کتابیں اور اردو والے لوگ ندارد تھے۔اس زمانے میں بی ۔اے والوں کے امتحان سال میں صرف ایک بار ہی یعنی بس فائنل ایگزام ہوا کرتے تھے۔ ہاں بیچ بیچ میں دو،دو مہینے میں ایک بار سیشنلز( sessionals) ہوجایاکرتے تھے۔اردو کے نصاب میں شاعری سے صرف ولی،درد،میر،غالب اور اقبال کی دس دس غزلیں تھیں اور کچھ دیگر شعرا کی نظمیں ۔اسی طرح نثر میں دوتین تین ،چار چارصفحات کے کچھ یوں ہی سے نثرپارے تھے اور میرے خیال سے اردو میں تقریبا نوے فیصد لوگ کسی نہ کسی مدرسے سے فارغ طلبا تھے۔ان کے لئے یہ نصاب کسی حلوے سے کم نہ تھا ۔اوپر سے سونے پر سہاگا یہ کہ نصاب کی ترتیب کچھ یوں تھی کی کہ ہر یونٹ میں کوئی دو موضوع اور صرف پانچ یونٹ ،یعنی کل دس موضوعات۔ ہر یونٹ میں موجود ان دو موضوعات میں سے ایک پچھلے سال آچکا ہے ،یعنی وہ سوال یا موضوع اب نہیں آسکتا۔ ا ب رہا ایک یونٹ میں صرف ایک یعنی کل بچے صرف پانچ ،موضوعات جن کو آنا لازمی ہے۔ مدرسہ کے بچوں کے لئے یہ کسی بچکانہ کھیل سے کم نہ تھا۔اسی لئے پورا سال نہایت عیش سے کٹتا تھا۔کھانا پینا،گھومنا،دیگر سرگرمیوں میں حصہ لینا وغیرہ وغیرہ۔وہیں کامرس اور سائنس والے یا دوسری سبجیکٹ کے بچے ہردم ریڈنگ روم میں موجود رہتے، لائبریری جاتے رہتے ۔اس لئے ان کے تعلق سے کتابیں لائبریری میں ان کے کہنے پرمنگوا بھی دی جاتیں تھیں۔اس لئے ان کی زیادہ تر چیزیں مہیا رہتی تھیں۔ ہمارا معاملہ یہ تھاکہ جب ایگزام شروع ہوتے تو ہر پیپر کے بیچ پندرہ دن کا گیپ ملتا،لیکن ہم ایک دن پہلے ہی نصاب دیکھتے تھے۔اب بتائیے اس ماحول میں کون لائبریری جاتا اور کون اردو کی کتابیں نکلواتا،لیکن پھر بھی کچھ لوگ تھے جو ریڈنگ روم جاتے تھے۔ یہ لوگ اسی دس فیصد میں سے تھے جو کسی مدرسے سے نہیں آئے تھے۔ حالانکہ لائبریری کی شکل تو انہوں نے بھی نہیں دیکھی تھی۔
ایک دن مجھے یوں ہی بیٹھے بیٹھے کسی مبارک لمحہ میں فیض صاحب کی کلیات دیکھنے کا شوق ہوا۔میں نے ارادہ کیا کہ آج لائبریری جاکر ایشو کروا لائوں گی۔کم سے کم لائبریری کے کارڈ پر ایک کتاب تودرج ہوجائے تاکہ کارڈ جمع کرتے ہوئے شرمندگی کا سامنانہ ہو۔دوپہر لنچ سے کچھ پہلے میں لائبریری کی طرف گئی(کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے)وہاں داخل ہونے کے بعد جائزہ لیتے ہوئے جو صاحب کتابیں نکال کر لاتے تھے ان سے کہا :’’ نسخہ ہائے وفا‘‘ لا دیجیے۔ انہوں نے بڑے غور سے مجھے اوپر سے نیچے دیکھتے ہوئے پوچھا :کیا؟؟؟؟میں نے ان کی طرف مکمل طور پر مخاطب ہوتے ہوئے پھر دوبارہ سے کہا : ’نسخہ ہائے وفا‘ چاہیے۔انہوں نے مجھے کچھ ایسے دیکھا کہ میں کچھ عجیب و غریب مخلوق ہوں اور نجانے کون سی زبان میں ان سے بات کر رہی ہوں۔دو چار بار بولنے کے بعد میں چپ کھڑی رہی ،سوچتی رہی کہ یہی تو نام ہے ۔میں نے کچھ اور تو نہیں کہہ دیا ،وغیرہ وغیرہ۔وہ صاحب اندر گئے ،میں سمجھی کہ وہ میرے لئے: کلیات یعنی ’ نسخہ ہائے وفا‘ لانے گئے ہیں۔دیکھا تو ہاتھ خالی لیکن ساتھ میں ایک لیڈی کو لئے آرہے ہیں ۔خیال آیا کہ یہ شاید اردو کا سیکشن یا اردوکی کتابیں دیکھتی ہوں گی۔ا ن صاحب نے کہا جو مجھے کہا تھا وہ ان کو بولو۔میں نے پھر کہا : ’ نسخہ ہائے وفا‘ چاہیے۔وہ میڈم بے تحاشا ہنسنے لگیں اور نہ صرف یہی، بلکہ سب کو جمع کرالیا۔ کئی کئی بار مجھ سے ’ نسخہ ہائے وفا‘ کہلوایا گیا۔ایک الگ ہی تماشا لگ گیا اور میں خاموش تماشائی۔۔۔۔کوئی کسی کو نسخہ کا مطلب Prescriptionبتا رہا ہے تو کوئی وفا کیDefinitionسمجھا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے جب بھی وہ تماشا یاد آتا ہے تو اپنی اس کیفیت کے تعلق سے افتخار عارف صاحب کے یہ اشعار ہوبہو اس واقعہ کی تصویر معلوم ہوتے ہی اور خاص کر میری اس سچویشن کی عکاسی کرتے معلوم ہوتے ہیں کہ ’’میرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا‘‘دو اشعار تو بالکل اسی کہا نی کو آگے بڑھاتے ہیں:
کہانی میں نئے کردار شامل ہوگئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہوگا
کہانی آپ الجھی ہے یا الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا
میں نے جب سب کو آپس میں اس طرح مصروف دیکھا تو وہاں سے چپ چاپ نکل جانے میں ہی عافیت سمجھی۔پورے راستے دل میں خود کو کوستی جاتی تھی کہ آخر آج کیا سوجھی تھی کہ اس ’ نسخہ ہائے وفا‘ کے چکر میں پڑی۔پھر وہ دن آج کا دن ہے ۔میں نے آج تک صر ف کلیات فیض سے ہی سے اس کو یاد کیا ۔ کبھی غلطی سے بھی’’ نسخہ ہائے وفا‘‘ نام زبان پر نہ آنے دیا۔ آج جب اشتہارمیں دیکھا کہ ’’اب ہمارے یہاں نسخہ ہائے وفا بھی پاکٹ سائز میں دستیاب ہے‘‘۔ ’’تو میرے دماغ کی سوئی نسخہ ہائے وفا ‘‘ پر اٹک گئی۔،اورپھر مجھے اپنے ساتھ ہو درد ناک حادثہ یاد آگیا( پھول کھلے شاخوں پہ نئے اور درد پرانے یاد آئے ) بہرحال اس وقت بھی لائبریری میں کلیات فیض کہہ سکتی تھی لیکن اس موقع پرنہ یہ بات ذہن میں آئی نہ ہی کوئی متبادل اور نہ ٹرانسلیشن۔ ٹرانسلیشن کی تو خیر ۔۔۔لیجیے صاحب !اس لفظ ’’ٹرانسلیشن ‘‘ سے پھر فیض صاحب کے شعر سے متعلق ایک واقعہ شدت سے کلبلانے لگا۔
یہ مجتبی حسین نے فیض صاحب کے متعلق ایک مضمون میں بھی بیان کیا ہے کہ فیض صاحب کسی محفل میں اپنا کلام سنا رہے تھے،ایک صاحبہ ـ’’اندرا سرینواسن ‘‘جو کہ تاریخ کی پروفیسر تھیں ،لیکن ہندی اردو نہیں سمجھتی تھیں ، وہ بھی وہاں پرموجود تھیں۔انہوں نے مجتبی حسین سے کہا کہ فیض صاحب کے اشعار کا ٹرانسلیشن وہ ان کو بتاتے رہیں ۔ مجتبی حسین نے کچھ اشعار کا ٹرانسلیشن انہیں انگریزی میں سنایا۔ان کی کچھ باتیں وہ سمجھ پاتیں اور باقی ان کے پلہ ہی نہیں پڑتی۔بات بات پر جرح کرتیں، لہذا مجتبی حسین نے اپنی جان چھڑانے کے لئے یہ ذمہ داری ارجن دیو کے سپرد کردی،جو مس اندرا کے شاگرد تھے۔مجتبی حسین نے ان سے کہا کہ مجھ سے زیادہ فیض کے شعروں کا مطلب یہ سمجھتے ہیں، پھر یہ ذمہ داری ارجن دیو نے سنبھال لی۔ جبھی فیض صاحب نے مشہور زمانہ غزل’’ گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے‘‘ سنانا شروع کیاتو ایک لطیفہ سا ہوگیا:
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آئو کہ گلشن کا کاروبار چلے
ارجن دیو نے اس کوکچھ یوںٹرانسلیٹ کیا:
.Faiz says: please come so that the business of garden may start
اس پرمس اندرا نے سخت حیرت میں مجتبی حسین سے کہا:
”?Mr.Mujtuba,”what is the business of garden
??I never heard of such business before. Is it profitable business
مجتبی حسین نے زوردار قہقہہ لگا کر کہا : اردو میں تو یہ گلشن کا کاروبار (business of garden ) بہت زمانے سے چل رہا ہے ۔سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔پھر بھی آپ گلشن کا کاروبار چلانا چاہتی ہیں تو ارجن دیو سے فیض صاحب کے شعروں کا ترجمہ سنتی رہیں۔آپ کے اس کاروبار کے اصول اور قاعدے سب معلوم ہوجائیں گے۔اس کے بعد کی کہانی کی مجتبی حسین کی ہی زبانی کچھ یوں ہے کہ ’’ اس business of garden کے چکر میں ارجن دیو نے بعد میں اندرا سرینواسن کو فیض کی غزلوں کا کچھ ایسا با محاورہ ترجمہ سنایا کہ خود ان دونوں کے بیچ گلشن کا کاروبار شروع ہوگیا۔اب اندرا کو اچھی طرح معلوم ہوگیا ہے کہ گلشن کا کاروبارکیسے چلتا ہے کیونکہ اب وہ اندرا سرنوسن سے اندرا ارجن دیو بن گئی ہیں۔‘‘
جی!اسی طرح گریجویشن کے دنوں کے کئی واقعات و حادثات اکثر یاد آجاتے ہیں۔نسخہ ہائے وفا سنتے ہی وہ واقعہ آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے اور اس زمانے کے دیگر واقعات بھی(کیسے زمانے اے جاناں تیرے بہانے یاد آئے)کچھ واقعات تو ایسے ہیں جو ناقابل بیان ہیں یا ان کے بارے میں بس ایک خیال یا ایک جملہ’ ناقابل بیان مسرت‘ ہی کہا جا سکتا ہے ،فیض صاحب کے کئی اور اشعار سے بہت سے لطائف یا واقعات جڑ گئے ہیں۔ جو وقت بے وقت دستک دے جاتے ہیں ،کچھ مخصوص اشعار کے قوت سماعت سے ٹکڑاتے ہی یادوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے:
شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں
بھولی بسری چند امیدیں چند فسانے یاد آئے
تم یاد آئے اور تمہارے ساتھ زمانے یاد آئے
٭٭٭٭٭
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں
1 تبصرہ
arshadabdulhameedkhan@gmail.com