ڈاکٹر ابراہیم افسر
اُردو زبان و ادب کی تاریخ کازریں دور اُردو تذکروں میں محفوظ ہے۔ان تذکروں کی ورق گردانی کے بعد ہی ہمیں بہت سے نامعلوم شعراکے کلام کودیکھنے اور پڑھنے کا موقع فراہم ہوا ۔اُردو تذکروں میں شعرا کے کلام کے علاوہ ہمیں ان کے مختصر حالاتِ زندگی کا ذکر ملتا ہے۔ان تذکروں میں تحقیق و تنقیدکے ابتدائی نقوش کے دیدار بھی ہمیں جا بجا ہوتے ہیں۔ ان تذکروں نے جہاں ایک جانب تاثراتی تنقید کی راہیں ہم وار کیں وہیں دوسری جانب ادبی تحقیق کے لیے بھی دروازے کھولے۔ ابتدائی تذکرہ نگاروں نے شعرا کے کلام پر جتنی توجہ کی اس سے ان کے ذوقِ مطالعہ اور وسیع مشاہدے کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔بہت سے تذکروں میں بعض گم نام شعراکے کلام اور ان کی تخلیقات کو بھی جگہ دی گئی جس کی وجہ سے ان کا نام،کام اور کلام محفوظ ہو گیا ۔حالاں کہ تذکرہ نگاروں نے کبھی اس بات کو ذہن میں نہیں رکھا کہ وہ جو باتیں لکھ رہے ہیں ایک زمانہ گزر جانے کے بعد ان پر تنقیدی و تحقیقی باتیں تحریر کی جائیں گی۔ابتدا میں تذکرہ لکھنے کے کچھ اصول و ضوابط متعین نہیں تھے۔ بعض تذکرہ نگاروں نے تو اپنے عہد کے نامور شعرا کا ذکر اپنے تذکروں میں نہیں کیا۔ تذکرہ نگاروں نے جس شاعر کوچاہا اپنے تذکرے میں شامل کیا اور جسے چاہا چھوڑ دیا۔مذکورہ امور کے پس منطر میں بابائے اُردو مولوی عبدالحق شعرا کے تذکروں کی اہمیت و افادیت کو تسلیم کرتے تھے۔ اس لیے انھوں نے کہا’’ہمارے شعرا کے تذکرے گو جدید اصول کے مطابق نہ لکھے گئے ہوں ، تاہم ان میں بہت سی کام کی باتیں مل جاتی ہیں،جو ایک محقق اور ادیب کی نظر وں میں جواہر ریزوں سے کم نہیں‘‘۔پروفیسر شارب ردولوی نے بھی تذکرہ نویسوں کے تنقیدی شعور اور ان کی ذہنی کشادگی پر بحث کرتے ہوئے لکھا:
’’تذکروں میں تنقید کو اس وسیع معنوں میں تلاش کرنے میں مایوسی اور کبھی کبھی گراہی کا شکار ہونا پڑا ہے۔ہر عہد کی تنقید کا معیار اور اصول مختلف رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس حقیقت کو بھی سامنے رکھنابہت ضروری ہے کہ اُردو تذکرہ نگاروں کے سامنے فن شعر پر بوطیقا جیسی کوئی کتاب نہیں تھی اس لیے کوئی مربوط تنقیدی نظریہ تذکروں میں تلاش کرنا بے سود ہے۔‘‘۱؎
اُردو میں تذکرہ نگاری کی ابتدااٹھارہویں صدی کے نصف میں میر تقی میر کے تذکرے ’نکات الشعرا ‘سے مانی جاتی ہے۔ حالاں کہ میر نے اس تذکرے کو فارسی میں لکھا تھا جس میں اُردو شعرا کا ذکر تھا۔اس کے بعد اُردو تذکرہ نگاری کے باب میں جن ادبا و شعرا نے اپنی خدمات انجام دیںان میں خواجہ حمید خاں حمید اورنگ آبادی،(گلشن گفتار) فتح علی گردیزی(ریختہ گویان) قیام الدین قائم(مخزن نکات)لچھمی نرائن شفق( چمنستان شعرا)میرحسن دہلوی(تذکرۂ شعرا ئے اُردو)مرزا کاظم مبتلا لکھنوی(گلشن سخن) غلام ہمدانی مصحفی(تذکرۂ ہندی)مرزا علی لطف(گلشن ہند) مولانا محمد حسین آزاد(آب حیات)شیفتہ(گلشنِ بے خار)عبدالغفار نساخ(سخن شعرا) حکیم فصیح الدین رنج میرٹھی (بہارستانِ ناز) سید انوار الحسن خاں(نگارستانِ سخن)درگا پرشاد نادر دہلوی( چمن انداز)لالہ سری رام(تذکرۂ ہزار داستان معروف بہ خم خانہ جاوید)رام بابو سکسینہ(مرقع شعرا)مالک رام(تلامذۂ غالب،تذکرۂ معاصرین)سید لطیف حسین(تذکرۂ شعرا بریلی)ڈی اے ہیریسن(اُردو کے مسیحی شعرا)،عرفان عباسی(تذکرۂ شعرا ئے اتر پردیش)،جوہرؔ دیو بندی(موجِ گنگ، نغمۂ ناقوس، اور صہبائے کُہن)وغیرہ کے نام سر فہرست ہیں۔
مذکورہ بالا تذکروں میں ہندو اور مسلم شعرا کا تذکرہ ایک ساتھ ملتا ہے۔لیکن بدھ پرکاش گپتا جوہرؔ دیو بندی کا اختصاص یہ ہے کہ انھوں نے اپنے تذکروں میں ہندو اور مسلم شعرا کی زمرہ بندی کرتے ہوئے ان کا ذکر کیا۔ان کا پہلا تذکرہ’’ موجِ گنگ ‘‘[تذکرۂ شعرائے ہنود]عنوان سے 1983میں منظرِ عام پر آیا۔اس تذکرے میں ابتدائے شاعری تا انیسویں صدی تک کے 900ہنود اور25عیسائی شعراکاتذکرہ کیا گیا ہے۔اس تذکرے کی اشاعت کے بعد علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی نے جوہرؔ دیوبندی کو ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری تفویض کی۔ ان کا دوسرا تذکرہ ’نغمۂ ناقوس‘[تذکرۂ شعرائے ہنود1901تا1925]1985میں منظرِ عام پر آیا ۔اس تذکرے میں 180ہنود شعرا کا ذکرہے۔جوہر دیو بندی کا تیسرا تذکرہ’صہبائے کہن‘[تذکرۂ شعرا ئے مسلم (قدیم)]عنوان سے 1992میں منظرِ عام پر آیا۔علاوہ ازیں ان کے شعری مجموعے’جوہر سخن‘( 1965)،’نقشِ معتبر‘(1977) اور’ کلیاتِ جوہرؔ‘(1988)میں منظرِ عام پر آکر قارئین و ناقدین سے دادِ
تحسین حاصل کر چکے ہیں۔
جوہرؔ دیوندی کی پیدایش 2اکتوبر1912کوضلع سہارن پور ،قصبہ دیوبند کے ایک متمول اگروال خاندان میں ہوئی۲؎۔ان کے اہلِ خانہ کا پیشہ زمین داری،شاہوکاری اور غلّے کی تجارت تھا۔گیارہ برس کی عمر میں ان کے والد اپنے حقیقی رب سے جا ملے۔ قریب پانچ سال کی عمر میں ان کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ابتدا میں انھوں نے محلے کی ایک دھرم شالہ میں واقع مکتب میں مولوی صاحب سے درس حاصل کیا۔اس مکتب کے بند ہونے کے بعد ان کا داخلہ مقامی ایچ۔اے ۔وی انگریزی اسکول میں کرایا گیا۔ یہاں انھوں نے درجہ آٹھ تک تعلیم حاصل کی۔آگے کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے انھوں نے ڈی۔اے۔وی ہائی اسکول مظفر نگر میں داخلہ لیا۔یہاں درجہ نو میں فیل ہونے کے سبب انھوں نے دیوبند میں داخلہ لے کر 1932میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔گھریلوں ذمہ داریوں اور طبیعت میں لا ابالی پن کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ ہائی اسکول تک ہی چل پایا۔
انھوں نے اپنی زندگی میں مختلف کام کیے۔مظفر نگر میں رائل ٹاکیز سنیما میں شراکت کی۔ سہارن پور میں غلہ کی تجارت کی۔ان کی دو شادیاں ہوئیں ۔پہلی بیو ی کا جلد انتقال ہوا ۔اس کے بعد دوسری شادی کی جس سے نو بچے پیدا ہوئے۔جوہر ؔدیو بندی کی وفات کے سلسلے میںڈاکٹر الف ناظم کے توسط سے جب راقم نے سہارن پور میں مقیم ان کے بھتیجے نیرج گپتا سے دریافت کیا تو انھوں نے بتا یا کہ جوہرؔ دیوبندی نے 11مئی 1994کو اس دارِ فانی سے کوچ کیا ۔
جوہرؔ دیوبندی کی طبیعت ابتدا سے ہی شعر و شاعری کی جانب مائل ہو چکی تھی۔ تجارت کے ساتھ ساتھ شعری مشق بھی جاری تھی۔ جب1937میں ان کی ملاقات بابو سمبھو دیال بھٹناگر سرشارؔسے ہوئی تو انھو نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ کے بعد جوہر دیوبندی کا تخلص اختیار کیا۔زندگی کی بے ثباتی کے تعلق سے جوہر دیوبندی کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے:
ہمارا کیا زور زندگی پر، کہ ہم اس کے امیں ہیں جوہرؔ
یہ دی ہے جس نے ہمیں امانت، اُسی کو اک دن سنبھال دیں گے
جوہر دیو بندی کی شاعرانہ صلاحیتوں اور ادبی خدمات کے بارے میں سید اخلاق حسین واصف عابدی سہارن پوری رقم طراز ہیں:
’’بدھ پرکاش صاحب جوہر دیوبندی کا شمار بھی اُردو ادب کے ایسے ہی مخلص افراد میں ہوتا ہے۔آپ کی ذات محتاجِ تعارف نہیں ،ملک اور بیرون ملک آ پ کی ادبی و علمی شہرت کا چرچا ہے۔ موصوف کی زندگی کا ایک طویل عرصہ عروسِ ادب کے گیسوسنوارنے میں گزارا ہے اور اس راستے پر اُن کا مسلسل سفر اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ مسافر نے راہ کی صعوبتوں ،مشکلات کی گھاٹیوں اور دشوار مرحلوں کے سامنے گردن نہیں جھکائی اور وہ اپنے عزم ِ جواں کے سہارے برابر آگے بڑھ رہا ہے۔۔۔جوہر صاحب ایک باکمال شاعر ہیں ۔انھوں نے سبھی اصنافِ سخن پر طبع آزمائی کی ہے۔وہ غزل،نظم ،نعت و سلام اور منقبت کے میدان میں اپنی جولانی طبع کا پرچم لہراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔۔۔جوہرؔ صاحب کی شاعری اگر ایک طرف عشقیہ مضامین کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے تو دوسری طرف اخلاقی و روحانی قدروں کی ترجمان بھی ہے۔‘‘۳؎
آئیے اب جوہرؔ دیوبندی کے مختصر حالات زندگی کے بعد ان کے تین تذکروںپر تنقیدی نظر ڈالتے ہیںتاکہ ان کا تذکرہ نگاری کے باب میں مقام متعین ہو سکے۔
۱۔موجِ گنگ:تذکرۂ شعرائے ہنود،ابتدائے شاعری تااُنیسویں صدی
جوہر دیو بندی کا پہلا تذکرہ ’موجِ گنگ ‘ہے جو 1983میں محبوب پریس دیوبند ، اتر پردیش اُردو اکادمی،لکھنؤ کے مالی تعاون سے شائع ہوا۔اس تذکرے میں انھوں نے ابتدا ئے شاعری تا انیسویں صدی کے 900ہنود اور 25عیسائی شاعروں کے مختصر حالتِ زندگی اورکلام کو شامل کیا ہے۔’موجِ گنگ‘کی کل ضخامت424صفحات پر مشتمل ہے۔جوہرؔ دیوبندی نے اس تذکرے کا انتساب رام پرشاد بسملؔ شاہ جہاں پوری کے نام معنون کیا ہے۔اس تذکرے کے سر ورق پرکاشی ناتھ فداؔ کا مذکورہ شعر درج ہے:
لگانا چاہیے میدانِ تحقیقات میں چکّر
پڑے رہنا نہیں اچھا ہے یاس و حسرت و غم میں
صفحہ چار پر موصوف نے اُن18 کتابوں اور رسائل و جرائدکا حوالہ درج کیا جن کی مدد سے انھوں نے ’موجِ گنگ‘کی تالیف کو پائیہ تکمیل تک پہنچایا۔ان کتابوں میں مولوی عبدالغفور نساخ کی ’سخن شعرا‘(1874)،کلب حسین نادر کی ’تضمین نادر‘(1866)، دیبی پرشاد بشّاس اجمیری کی ’تذکرہ آثار الشعرائے ہنود‘(1885)، شیام سندر لال برق سیتاپوری کی ’بہارِ سخن‘ (1908) لالہ سری دہلوی کی ’خم خانہ جاوید‘کی پانچ جلدیں( 1908،1911،1915، 1926،1940)مالک رام کی’تلامذۂ غالب‘(1957)بال مکند عرش ملسیانی کی’فیضانِ غالب‘(1977)،پروفیسر گنپت سہائے سریواستو کی ’اُردو شاعری کے ارتقا میں ہندو شعرا کا حصہ‘(1969)، عبدالشکور بیگ کی ’دورِ جدیدکے چیدہ ہندو شعرا‘(1942)سید شہاب الدین ’گلستان ہزار رنگ‘(1957)، بزمِ ادب سہارن پور کی ’سوینیر‘(1981)رسالہ’ شانِ ہند‘جولائی 1964کے شمارے میں ‘اظہر چودھری کا مضمون،سدا بہار دہلی کا رسالہ جات 1961-62،دواوین شعرا کے علاوہ ذاتی معلومات سرِ فہرست ہیں۔اس کے بعدجوہرؔ دیوبندی نے صفحہ5پر 14ہنود شعراکے منتخب اور ضرب المثل اشعار کو نقل کیا۔ان شعرا میں مہتاب رائے تاباںؔ، موجی رام موجیؔ، مہاراجہ رام نرائنؔ، منّو لال صفاؔ، بانکے لال بسملؔ، مادھو رام جوہرؔ، بھولا ناتھ شررؔ،درگا پرشاد ستم،ؔہر کشن داس رسواؔ، رام پرشاد شادؔ، رام کشن آہؔ، برج نرائن چکبستؔ، گھنشیام لال عامیؔاور پنڈت دیا شنکر نسیم ؔ کے اسما قابلِ ذکر ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
شعلہ بھڑک اٹھا مرے اس دل کے داغ سے
آخر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
(مہتاب رائے تاباںؔ)
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مر گیا آخر کو ویرانہ پہ کیا گزری
(مہاراجہ رام نرائن موزوںؔ)
وہ کون سا عقدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
(بانکے لال بسملؔ)
شور ہے کجِ قفس میں داد کا فریاد کا
خوب طوطی بولتا ہے ان دِنوں صیّاد کا
(بھولا ناتھ شررؔ)
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے ان ہی اجزا کا پریشاں ہونا
(چکبست)
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے
رہے دل میں ہمارے یہ رنج و الم
نہ اِدھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے
(گھنشیام لال عاصیؔ)
لائے اس بت کو التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
(دیا شنکر نسیمؔ)
صفحہ 7پرجوہر دیوبندی نے اپنے پیش لفظ ’آئینہ خانوں سے گزرتے ہوئے‘میں اس کتاب کی تکمیل کی تفصیل کے علاوہ اُردو زبان و ادب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ایک زمانہ تھا کہ جب بھارت ورش زبان کے معاملہ میں ایک نمایش گاہ بنا ہوا تھا ۔قدم قدم پر طرح طرح کی بولیاں سامنے آتی تھیں۔ایک خطّے کے لوگ دوسرے خطّے کی زبان سمجھنے سے قاصر تھے۔آخر قدرت نے ایک ایسی حسین اور شیریں زبان کو خلعتِ وجود سے نوازا جو سطح ہند پر نمودار ہو کر اُردو زبان کے نام سے مشہور اور مقبول ہوئی۔‘‘۴؎
اُردو کے معنی جوہر دیو بندی نے لشکر کے اور بازار کے لکھے۔ان کی نظر میں یہ زبان یہیں سے پیدا ہوئی ۔اس وجہ سے اس کا نام اُردو مشہور ہوا۔جوہر دیو بندی کے مطابق اُردو میں قریب پچاس فی صد الفاظ ہندی کے اور پچاس فی صد الفاظ عربی ،فارسی ترکی ،پرتگالی،انگریزی ،اطالوی،یونانی وغیرہ کے شامل ہیں ۵؎۔انھوں نے امیر خسرو کو اُردو شاعری کا موجد مانا ہے۔ انھوں نے یہ بھی لکھا کہ ان کی شاعری کی ابتدا فارسی اور ہندی کے اشتراک سے عمل میں آئی،یعنی ایک مصرع فارسی کا اور دوسرا ہندی کا،یا آدھا مصرع فارسی ا اور آدھا مصرع ہندی۶؎۔لیکن جوہرؔ دیو بندی نے قارئین کو یہ نہیں بتایا کہ امیر خسرو جس ہندی کا استعمال کرتے تھے کیا وہ دورِ حاضر کی دیو ناگری تھی یا اُردو؟کیوں کہ اُردو کا ایک قدیم نام ہندی بھی تھا۔عموماً اصطلاح میں شاعروں نے اُردو کو ہندی اور ہندوی ناموں سے موسوم کیا ہے۔اُردو کے مختلف ناموں کے بارے میں شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:
’’جس زبان کو ہم اُردو کہتے ہیں ،پرانے زمانے میں اسی زبان کو ہندوی، ہندی، دہلوی، گجری، دکنی اور پھر ریختہ بھی کہا گیا ہے،اور یہ تمام نام اسیترتیب سے استعمال میں آئے جس ترتیب سے میں انھیں درج کیا ہے۔یہ ضرور ہے کہ اس زبان کا وہ روپ جو دکن میں بولا اور لھا جاتا تھا، اسے سترہویں صدی سے لے کر انیسویں صدی کے قریباً وسط تک دکنی ہی کہتے تھے۔ اور شمال میں ایک عرصے تک ریختہ اور ہندی دونوں ہی اس زبان کی حیثیت سے ساتھ ساتھ استعمال ہوتے رہے۔‘‘۷؎
اپنے پیش لفظ میں جوہر دیو بندی نے اُردو زبان کے مسلم اور ہندو شاعروں کی ادبی خدمات کا اجمالی جائزہ پیش کرنے کے بعد یہ رائے پیش کی کہ کسی بھی ادب کو اور فن کو خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا ۔کیوں کہ ادب اور فن قوموں کی مشترکہ میراث ہوتے ہیں۔ انھوں نے اس بات کی شکایت اپنے پیش لفظ میں کی کہ بہت سے تذکرہ نگاروں نے شعرائے ہنود کا تذکرہ بڑے ہی طمطراق کے ساتھ کیا لیکن بعض نے بخل سے کام لیا۔اس تشنگی کو دور کرنے کے لیے خود جوہر دیو بندی نے اس مشکل کام کے لیے خود کو تیار کیا اور انھوں نے ’موجِ گنگ‘عنوان سے شعرائے ہنود کا تذکرہ تالیف کیا۔اس ضمن میں رقم طراز ہیں:
’’جس طرح ادب کسی قوم کی میراث نہیں اسی طرح فن شعر گوئی بھی کسی قوم کا سرمایہ نہیں،ادب اور فن انسانیت کا سرمایہ ہیں۔ان کو حصوں یا خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔مگر یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ جہاں کچھ مصنفین نے اپنے تذکروں میں شعرائے ہنود کے لیے فراخ دلی کا ثبوت پیش کیا ہے وہاں کچھ مصنفین نے بخل سے کام لیا ہے۔کافی عرصے سے ایک خیال دل میں ابھررہا تھا کہ وہ گوہر نایاب جو اس وقت ہماری نظروں سے قطعی طور سے اوجھل ہو کر رہ گئے ہیں ان کی تلاش کی جائے اور منظر عام پر لایا جائے۔مجھے خوشی ہے کہ میرا یہ خیال تعبیر کی حدوں میں داخل ہو چکا ہے۔
میں نے اسی خیال کے پیش نظر ادب کے بحرِ بیکراں میں غوطہ زنی شروع کر دی اور جہاں تک بھی مجھ سے ممکن ہو سکا ان موتیوں کو حاصل کرنا ایک بڑا مرحلہ تھا جو بڑی جد و جہد کے بعد طے ہوا۔ ویسے میری مختصر سی لائبریری میں بھی کچھ اس قسم کے تذکرے موجود تھے جس نے مجھے کافی مدد ملی اور آخر کار میں نے تحقیق و جستجو کا یہ مرحلہ طے کر کے اس سرمایۂ ادب کو آپ بیتی تک پہنچا نے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔‘‘۸؎
موصوف نے اپنے پیش لفظ میں اس بات کو قبول کیا کہ مجھے یہ دعوا نہیں کہ میں دورِ قدیم اور دورِ وسط کے تمام شعرائے ہنود کے تذکروں کو جمع کرنے میں کامیاب ہوا ہوںالبتہ جہاں تک بھی میری رسائی ہو سکی وہاں تک میں نے پرواز کی۔جوہر دیو بندی نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ طوطا رام عاصیؔ، سنتوکھ رائے بینواؔ، رائے پریم ناتھ،بدھ سنگھ قلندرؔوغیرہ کا کلام اور تعارف انھیں دستیاب نہیں ہو سکا جس وجہ وہ ان شعرائے ہنود کو اس تذکرے میں شامل نہیں کر سکے۔انھوں نے اس تذکرے کی ترتیب و جمع آوری کے تعاون کے لیے مالک رام ،رام چندر سمنؔ سرحدی کا شکریہ خاص طور پر ادا کیا ہے۔
تذکرہ ’موجِ گنگ‘کا مقدمہ توصیف احمد علوی کیرانوی نے رقم کیا ہے۔ اپنے مقدمے میں توصیف صاحب نے جوہر دیو بندی کی عالمانہ وفاضلانہ ادبی و فنی بصیرتوں کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں تحقیق و تدوین کہ سالار کارواں قرار دیا ہے۔ان کی نظر میں جوہر دیو بندی کا یہ تذکرہ ٔ شعرائے ہنود کا اولین صحیفہ ہے۔توصیف کیرانوی اپنے مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’جوہرؔ صاحب نے تحقیقی و تاریخی معلومات کا ایک اور شاہ کار’’موجِ گنگ‘‘پیش کیا ہے۔یہ ادبی دنیا کے لیے ایک اچھوتا شہ پارہ اور گراں قدر عطیہ ہے۔یہ ان کی تحقیق و تالیف کے سلسلے کی ایک بے مثال تحقیقی کاوش ہے جس میں انھوں نے اُردو شاعری کے ابتدائی دور سے لے کر انیسویں صدی کے اختتام تک ہر اس ہندو شاعر کا تذکرہ شامل کرنے کی کوشش کی ہے جن کا نام قرطاس اور تاریخ نے اپنے آغوش میں چھپا کر ان تک پہنچا دیا ہے۔یہ ایک بڑا عظیم کار نامہ ہے جو تقریباً نو سو شعرا پر مشتمل ہے۔اتنی بڑی تعداد میں ہندو شعرا کا تذکرہ اُردو ادب کی تاریخ میں پہلی بار ایک ایسے صحیفے کے طور پر سامنے آیا ہے جسے شعراالہنود ِ ہند کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔‘‘۹؎
علامہ سادھو رام آرزوؔ سہارن پوری نے ’عظیم کار نامہ ‘عنوان سے ’موجِ گنگ‘پر تقریظ لکھی ہے۔انھوں نے اپنی تقریظ میں فنونِ لطیفہ کے چار ارکان شاعری، موسیقی، تعمیر اور مصوری میں شاعری کو ارفع و اعلا اور بلند قرار دیا ہے۔ سادھورام آرزو مزید لکھتے ہیں کہ ادب کے دامن کو ہندو اور مسلمان شعرا و ادبا نے مالا مال کیا ہے ۔لیکن بعد کم علم حضرات نے بغض اور حسد سے اس کے دامن کو ناپاک کرنے کی کوشش ضرور کی۱۰؎۔حالاں کہ انھوں نے اس باک کی خوشی کا اظہار کیا کہ اس تنگ دامانی کے باوجود ابھی بھی ایسے مصنف موجود ہیں جنھوں نے اپنے قلم سے اُردو کے آنگن کو تختۂ مشق بنایا۔موصوف جوہر دیوبندی کے اس عظیم کارنامے پر فر محسوس کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’اپنے عزیز ترین دوست جناب بدھ پرکاش جوہرؔ دیوبندی مقیم سہارن پوری کو جو میرے برادر خواجہ تاش جناب بابو شمبھو دیال صاحب بھٹناگر سرشار سہارن پوری مرحوم کے ارشد تلامذہ ہیں کو مبارک باد پیش دیتا ہوں کہ انھوں نے یہ کارِ عظیم انجام دے کر اپنا نام ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا ہے اور ارباب شعرو ادب کو ایک ایسے تحقیقی کارنامے سے نوازا ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوگا اور اس کا گلہائے رنگا رنگ اور بیش بہا گوہر ہائے آب دار سے ہر زمانہ میں شائقین علم و شعر کے دماغ و روح مکیّف اور مجلّٰی ر ہتے رہیں گے ،اور یہ عظیم کارنامہ نہ صرف ہندوستان بلکہ بیر و نجات کے کتب خانوں میں بڑے ذوق و شوق سے پڑھا جایا کرے گا۔یہاں اس بات کی تشریح بالوضاحت بھی ضروری ہے کہ دنیائے ادب میں آج تک شعرائے ہنود کے متعلق اتنا ضخیم تذکرہ شائع نہیں ہوا،اور یہ بات جناب جوہر دیو بندی کے لیے کچھ کم فخر کی نہیں۔‘‘۱۱؎
’موجِ گنگ‘کی فہرست شعرا میں جوہر دیو بندی نے ردیف’ الف‘ تا ردیف’ ی ‘شعرائے ہنود مرد و زن کو شامل کیا ہے۔اسی طرح انگریز مرد و زن شعرا کو بھی ردیف کی ترتیب سے شاملِ فہرست کیا ہے۔جوہر دیوبندی نے ’غزل ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میںہے ‘کو موجِ گنگ‘کے صفحہ 76پررام پرشاد بسمل شاہ جہاں پوری سے منسوب کیا ہے۔جب کہ یہ غزل رام پرشاد بسمل شاہ جہاں پوری کی نہیں بلکہ بسمل عظیم آبادی کی ہے جو ان کے شعری مجموعے ’حکایت ہستی‘۱۲؎کے صفحہ 46پر درج ہے۔اس غزل کو رام پرشاد بسمل سے منسوب کرنے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اکثر اس غزل کو گنگناتے رہتے تھے اور جب انھیں19دسمبر1927کوگورکھپور جیل میں پھانسی کا پھندا پہنایا گیا تو ان کی زبان پر اسی غزل کا مطلع تھا۔
’موجِ گنگ‘کی اشاعت پر پروفیسر بخشی اخترؔ امرتسری نے ’قطعۂ تاریخ در اشاعت موجِ گنگ‘عنوان سے اور ’تاریخی رباعی‘بھی لکھی جو قارئین کی خدمت میں حاضر ہے:
اے مصحفِ موجِ گنگ ہر شام و پگاہ
تو اہلِ ہنود کے سخن کا ہے گواہ
تاریخ کی فکر تھی کہ آئی آواز
اختر یہ شہکارِ جوہرؔ ہے واہ
۱۹۸۳ء
اس موقع پر ’موجِ گنگ‘میں شامل چندشعرا کا کلام ملاحظہ کیجیے:
ادا جان لیتی ہے جانی تمھاری
قیامت ہوئی ہے جوانی تمھاری
فدا تم پہ میں ہوں تم اوروں کو چاہو
یہ قسمت مری قدر دانی تمھاری
تمھارا ہے دردِ زبان ذکر ہر دم
وظیفہ مرا ہے کہانی تمھاری
(منشی خوش ونت رائے )
جس جگہ بیٹھ گئے ہم نے وہیں گھر جانا
دشت کو شہر کی آبادی سے بڑھ کر جانا
ابھی آئے ہو ابھی کہتے ہو رخصت رخصت
اور اے جانِ جہاں بیٹھ لو دم بھر جانا
(لالہ لڑپتی پرشاد مضطرؔ)
۲۔نغمۂ ناقوس:تذکرۂ شعرائے ہنود،1901تا1925
جوہرؔ دیوبندی کا دوسرا تذکرہ’نغمۂ ناقوس:تذکرۂ شعرائے ہنود 1901تا1925‘ فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی لکھنؤ کے مالی تعاون سے 1985میں،مطبع محبوب پریس دیوبند سے شائع ہوا۔اس تذکرے میں 180ہنود شعرا کے مختصر حالاتِ زندگی اور اور ان کے کلام کوقارئین کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔’نغمۂ ماقوس‘ کی ضخامت 296صفحات پر مشتمل ہے۔ اس تذکرے کے سر ورق پرتیج ونت رائے ساحرؔ کے شعر:
وہ بھی کیا تعمیر ہے جو غیر کی ممنون ہو
بات جب ہے اپنی دنیا آپ پیدا کیجیے
کو بہ طور خاصلکھا گیا ہے۔ اس شعر کی مناسبت سے جوہر دیوبندی نے شعرائے ہنود کا تذکرہ لکھ کر اپنی دنیا آپ پیدا کی ہے۔ ’ناقوس‘کے معنی سنکھ کے ہوتے ہیں ۔ہندو مذہب میں سنکھ کو مقدس مانا گیا ہے۔اسے پوجا پاٹھ اور نیک کام کرنے کے لیے بجایا جاتا ہے۔عرفِ عام میں اسے بگل بجانا سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اس لحاظ سے’ نغمۂ ناقوس‘ سنکھ سے نکلنے والے نغمے کی علامت کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔جوہر دیو بندی نے ’نغمۂ ناقوس‘کا پیش لفظ’دعوتِ نظر‘عنوان سے لکھا ۔اس پیش لفظ میں انھوں نے ’نغمۂ ناقوس‘کو ’موجِ گنگ‘ سلسلے کی دوسری کڑی قرار دیاہے۔ ’موجِ گنگ‘ کی اشاعت کے بعد ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ وہ اس سلسلے کو آور آگے بڑھائیں۱۳؎۔اس لیے جوہر دیوبندی نے 1901تا1925کے شعرائے ہنود کے نام ،اور کلام کی جستجو میں جد و جہد کرنا شروع کی۔اس سلسلے میں وہ رقم طراز ہیں:
’’مجھے یہ دعوا تو نہیں کہ میں اس تذکرہ میں دور ہٰذا کے تمام شعرائے ہنود کا احاطہ کرنے میں کامیاب ہوا ہوں ۔البتہ جن جن گوشوں تک رسائی کر سکا میں نے کی۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی کہ کافی شعرا کو بہ سبب اپنی نارسائی کے اس تذکرہ کی زینت نہ بنا سکا جس کا مجھے بے حد افسوس ہے اور ان شعرا حضرات سے معذرت خواہ ہوں۔‘‘۱۴؎
جوہر دیو بندی نے ’نغمۂ ناقوس ‘کی تکمیل کے لیے جن کتابوں ،رسائل ،شعرااور احباب سے استفادہ کیا، جن صعوبتوں کو انھوں نے برداشت کیا اور جن کرم فرماؤں نے ان کا تعاون کیا کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:
’’اس کتاب کی تکمیل میں چند تذکروں ،شعری مجموعوں اور شعرا صاحبان سے ذاتی طور پر رابطہ قائم کر کے کام لیا گیا ہے۔ کتاب ہٰذا کی تیاری کے دوران کچھ شعری مجموعے ایسے بھی سامنے آئے جو مصنف کے تعارف کے محتاج تھے یا پھر ان میں مصنف کے اصل نام کی کسی جگہ بھی نشان دہی نہیں کی گئی تھی صرف تخلص کا سہارا لیا گیا تھا جس کے سبب کتاب کی تیاری میں کچھ تاخیر واقع ہوئی۔کیوں کہ اس تلاش و جستجو میں کافی وقت غیر ضروری پر ضائع ہو گیا۔کچھ ایسے شعرا حضرات سے بھی واسطہ پڑا جن کو خطوط لکھ کرتعارف اور کلام حاصل کرنے کی التجا کی گئی۔ مگر یہ حضرات خاموشی اختیار کر گئے ۔ان کے علاوہ کچھ ادب نواز اور مخلص شعرا صاحبان ایسے بھی سامنے آئے کہ جن کو کسی معتبر ذریعے سے یہ معلوم ہو ا کہ میں اس قسم کا کوئی تذکرہ ترتیب دے رہا ہوں ۔انھوں نے از خود اپنے کوائف سے نواز کر میری حوصلہ افزائی کی اور اس تذکرہ کو زینت بخشی۔ان حضرات کا میں بہت بہت شکر گزار ہوں۔‘‘۱۵؎
جوہر دیو بندی نے’نغمۂ ناقوس‘کے پیش لفظ کے آخر میںرام رتن مضطرؔ امرتسری اور منظور احمد مظلومؔ کا شکریہ اس بات کے لیے ادا کیا کہ ان دونوں حضرات نے ’نغمۂ ناقوس‘کی تالیف و ترتیب میں اپنے بیش قیمت مشوروں اور علمی و ادبی تعاون سے انھیں نوازا۔’نغمۂ ناقوس‘پر ڈی ۔اے ہیریسن قربانؔ ایم۔اے،بی۔ٹی مراد آبادی(مصنف اُردو کے مسیحی شعرا)نے’ فکرِ جمیل ‘عنوان سے تقریظ لکھی ہے۔ہیریسن قربانؔ نے اُردو تذکرہ نگاری کو اُردو شاعری کے جتنا ہی قدیم بتایا ہے۔موصوف نے اپنی تقریظ میں یہ بھی لکھا کہ تحقیق کا میدان اس قدر وسیع ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔یہ وہ منزل ہے جس کی آخری حدود تک رسائی ممکن نہیں ۔البتہ اس منزل کے مسافر ابتداسے ہی اس دشوار گزار راہ میں چراغ جلاتے آ رہے ہیںاور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب تک سیکڑوں کی تعداد میں تذکرے عالمِ وجود میں آ چکے ہیں۔لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی مکمل ہونے کا دعوا نہیں ہوا۔یہ ضرور ہے کہ ہر تذکرہ نے مشعلِ راہ کا کام ضرور دیا؎۱۶
ہیریسن قربان ؔ نے ایک شاعر کے محقق ہونے پر مسرت کا اظہار کیا ہے۔اس ضمن میں انھوں نے جوہر ؔ دیوبندی کا مبارک باد پیش کی کہ وہ ایک شاعر ہونے کے باوجود تحقیق کی مشکل راہوں کے مسافر بھی ہیں۔وہ لکھتے ہیں:
’’ایک محقق کا شاعر ہونا تو سہل ہے لیکن ایک شاعر کا محقق ہونا دشوار ہے۔اس کام کے لیے بڑی عرق ریزی ،وسیع مطالعہ اور لا محدود ذرائع کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جوہرؔ صاحب کو تلاش و جستجو سے خاص شغف ہے ۔کوئی نئی چیز اگر نظر آتی ہے تو اس کی مکمل تحقیق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی شوق اور جستجو کا نتیجہ ہے کہ آپ کا دوسرا تذکرہ ’نغمۂ ناقوس‘کی صورت میں اہلِ ادب کے رو برو ہے جس کے ذریعے کافی تعداد میں استاد اور گم نام شعرائے ہنود کی نشان دہی فرمائی گئی ہے۔۔۔جوہرؔ صاحب نے ’نغمۂ ناقوس‘ ایک ایسی دستاویز تیار کی ہے جو آنے والی نسلوں کی ہمیشہ ہمیشہ رہنمائی کرتی رہے گی اور اربابِ تحقیق کے لیے اچھا خاصا تحقیقی مواد فراہم کرے گی۔یہ ایک ایسا قیمتی سرمایہ ہے جس پر ادب رہتی دنیا تک ناز کرے گا اور یہ ایسا سر چشمۂ علم ہے جس سے تشنگانِ ادب سیراب ہوتے رہیں گے۔۱۷؎
جوہرؔ دیو بندی نے ’نغمۂ ناقوس‘ کے آغاز میں’اُردو زبان کی مختصر تاریخ‘عنوان سے مضمون سپردِ قلم کیا ہے۔اس مضمون میں انھوں نے اُردو زبان کے آغاز و ارتقا پر تحقیقی و تنقیدی گفتگو کی ہے۔ اُردو کے آغاز کے سلسلے میں جوہرؔ دیوبندی نے لکھا کہ اُردو کی تاریخ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس زبان کا حمل آج سے قریب تیرہ سو سال قبل اس وقت قرار پایا تھا جب 712میں محمد بن قاسم نے ہندوستان پر حملہ کیا تھا۱۸؎۔جوہر دیو بندی کے اس دعوے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ محمد بن قاسم سے قبل ہی عربوں کا ہندوستان میں تجارت کے واسطے آنا جانا شروع ہو چکا تھا۔اس مناسبت سے یہاں کے مقامی باشندوں اور عربوں کے مابین تجارتی لین دین کے لیے کچھ نہ کچھ گفتگو ہوتی ہوگی۔صرف محمد بن قاسم کے حملے کو اُردو کے فروغ کے سلسلے کی ایک اہم کڑی تسلیم کرنا تاریخ سے چشم پوشی کرنے کے مترادف ہوگا۔جوہر دیو بندی نے اُرود کو لشکری زبان اور کھچڑی زبان قرار دیا ہے۔ ان کی نظر میں آٹھویں صدی تا بارہویں صدی کے عرصے میںعربوں ،ایرانیوں ،ترکوں اور افغانوں کے ساتھ جو فوج ہندوستان آئی تھی اس نے مقامی باشندوں اور دوکانداروں کی روز مرہ کی زبان سے ایساخیمر تیار کیا جس کے بطن سے اُردو عالمِ وجود میں آئی۔ اس بارے میں جوہر دیوبندی لکھتے ہیں:
’’اُردو زبان کا جنم لشکر کے بازار میں ہوا تھا۔ہر ملک کے لوگ لشکر میں موجود تھے اور اپنی اپنی زبانیں ساتھ لے کر آئے تھے۔ادھر بازار لگانے والے ہندی دوکان دار تھے۔ سودا سلف کی احتیاج سے آپس میں بات چیت کی ضرورت پیش آئی ۔ لہٰذا سامان کی خرید اری کے وقت غیر ملک والوں کو ہندی دوکان دار وں سے اپنی زبان میں اپنی ضرورت ظاہر کرنی ہوتی تھی ۔یا پھر اشاروں کے ذریعے سامان طلب کیا جاتا تھا۔ یہی حالت ادھر ہندی دوکان داروں کی تھی۔ اس طرح دونوں فریقین کو ایک دوسرے کے قریب رہنے اور آپس میں گفتگو سے ایک دوسرے کی زبان سیکھنے اور سمجھنے میں کافی مدد ملی اور خود بہ خود ایک نئی زبان وجود میں آنی شروع ہو گئی۔چوں کہ اُردو کا جنم لشکر کے بازار میں ہوا تھا لہٰذا اس کا نام اُردو مشہور ہوا۔ ترکی زبان میں اُردو کے معنی لشکر کے بازار کے ہیں۔‘۱۹؎
جوہر دیو بندی نے اُردو کے آغاز کی ہیئتی تشکیل کا جو نظریہ پیش کیا وہ تحقیقی اصولوں پر کھر ا نہیں اترتا ۔جوہر صاحب یہ بھول جاتے ہیں کہ ماہر لسانیات نے اُردو کے زبان کے تشکیلی دور کو قدیم ہند آریائی (1500ق م تا500ق م)،وسطی ہند آریائی(500ق متا1000) اور جدید ہند آریائی (1000تا زمانہ حال)میں تقسیم کیا ہے۔قدیم ہند آریائی دو رمیں ویدک سنسکرت کے ادب پر بحث،وسطی ہند آریائی دور میں پالی، مہاراشٹری، شور سینی، مگدھی، آردھ ماگدھی، پیشاچی اوراپ بھرنش(کھڑی بولی:موجودہ اُردو ہندی)کے فروغ و ارتقاکی باتیں اور جدید ہند آریائی دومیں سندھی، لہندا،پنجابی گجراتی، مغربی ہندی(کھڑی بولی،ہریانوی، برج بھاشا،قنوجی،بندیلی)اورمشرقی ہندی پر گفتگو شامل ہے۔مغربی ہندی کے علاقے سہارن پور سے تعلق رکھنے والے جوہر دیوبندی اُردو کے ارتقا میں مغربی ہندی کے کردار کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔موصوف نے اپنی بات کو وزن دار بنانے کے لیے میر انیسؔ کے شعر:
کھولے ہوئے پر کہتے ہیں شاہینِ ترازو
پلّے ہوں برابر کہ یہ عادل کا ہے اُردو
میں سے شاہین کے معنی اُس کپڑے کے بتائے ہیں جو ترازو کی ڈنڈی کے درمیان میں باندھا جاتا ہے اور اُردو کے معنی بازار کے لکھے ہیں۲۰؎۔اُردو کے فروغ کے سلسلے میںانھوں اس نئی زبان کو یتیم اور لا وارث بچہ تک لکھااور امیر خسرو کو اس نو مولود بچے کا پالن ہار قرار دیا۔ جوہرؔ دیو بندی اس بارے میں لکھتے ہیں:
’’زمانہ گزرتا گیا اور حکومتوں کے عروج و زوال ظہور میں آتے رہے اور یہ یتیم و لاوارث بچہ کس مپرسی کے عالم میں بے یار و مدد گار ،بھیڑ بھاڑ میں اِدھر اُدھربھٹکتا پھرتا رہا اور کسی نے اس کی طرف توجہ نہ کی۔ آخر امیر خسرو کی گوہر شناس نظریں اس ہونہار بچے پر گئیں۔ اور اس نے اس کو اپنی آغوش میں لے کر پرورش شروع کردی۔ یعنی عربی ،ترکی اور فارسی کے میل جول سے جو بچہ ہندوستان کے بطن سے پیدا ہوا تھا اس کو روشناس کرانے کا بیڑا اٹھایا۔امیر خسرواوّل شخص تھے جو اس زبان کو جان کر کام میں لائے اور فارسی آمیز غزل کہی یعنی ایک مصرع فارسی اور دوسرا ہندی یا آدھ مصرع فارسی اور آدھا ہندی اس طرز کے کلام کو ’صنعت ملمع‘ کہتے ہیں۔اسی کے ساتھ ایسا کلام بھی کہا جس میں فارسی اور ہندی کے الفاظ یکے بعد دیگرے استعمال کیے گئے ہیں۔‘‘۲۱؎
جوہر دیوبندی نے اپنے مضمون میںآگے لکھا کہ 1488میں سکندر لودی کا دور شروع ہوا اور1497میں پرتگیزیوں کا جہاز اسی باد شاہ کے زمانے میں پہلے پہل سمندر کے کنارے دکن میں اُترا تھا۲۲؎۔یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ سکندر لودی کی حکومت شمالی ہند تک محدود تھی نہ کہ دکن تک۔پرتگالی سیاح واسکوڈیگاما کالی کٹ کے ساحلی علاقے میں 20مئی1498کو اترا تھا۔ان دونوں واقعات کا آپس میںکوئی تعلق نہ تھا۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ پرتگالی زبان کے بہت سے الفاظ چابی،پادری، گرجا، انگریز، انگریزی،پیپا، بانس، گودام، استری، کاج، پرات، بھتہ، پگار، الفانسو، پپایا، تمباکو،مارتوڑ،بمبا، مستول وغیرہ ضرورتِ عامہ کے تحت استعمال ہوتے ہیں۔
آگے چل کر جوہر دیو بندی نے اُردو کے ارتقا میں باد شاہ اکبر اور راجپوتانہ کی عورتوں اور بیگمات کے کردار پر چند باتیں رقم کی ہیں۔ جوہرؔ دیو بندی کی نظر میں باد شاہ اکبر کی شادی جودھابائی سے ہونے کے سبب ان کی سہیلیوں اور خادماؤں کا محل پر ایک طرح سے قبضہ ہو گیا تھا اور ان کی زبان اور بولی سے باد شاہ بھی متاثر ہوا۔اکبر نے اپنے قلعے میں ہی’’مینا بازار‘‘کی بنیاد ڈالی۔اس طرح تمام امرا وشرفا کی عورتیں اس بازار سے اپنی ضرورت کا سامان خریدتیں۔جوہر دیو بندی نے یہ بھی لکھا کہ سنت تلسی داس نے اکبر کے زمانے میں’ رام چرت مانس‘ کو ہندی زبان میں لکھااور اپنی شاعری میں فارسی زبان کے الفاظ کو استعمال کیا۔یہاں تک کہ سورداس نے بھی اپنی شاعری میں فارسی زبان کے لفظوں کا استعمال کیا۔اس مضمون کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’اکبر اور اس کے غیر ملکی درباری جو دربار اور محل سے وابستہ تھے آپس میں غلط سلط اور اناپ شناپ جو جیسا جس سے سُنا اور سمجھ میں آیا بولنا شروع کر دیا۔ اسی سبب اکبر نے قلعہ میں زنانہ بازار کی بنیاد ڈالی اور اس کا نام ’’مینا بازار‘‘تجویز کیا۔ اس بازار میں سب اہلِ پیشہ اور حرفہ کی خواتین عربی، ترکی، ایرانی،ہندی اپنی اپنی دکانیں سجاتی تھیں اور محلات شاہی اور امرا کی بیبیاں اور محل کی دیگر خواتین خرید و فروخت کرتی تھیں۔یہ بازار ہر ہفتہ لگایا جاتا تھا اس طرح ہندی عورتوں کو ولائتی عورتوں سے اور ولائتی عورتوں کو ہندی عورتوں سے بات چیت کا اچھا موقع ملا۔ بلکہ یوں کہیے کہ امیر خسرو اور کبیر داس کا گود کھلایا یہ بچہ اب کھیلتا کودتا نظر آنے لگا۔سنت تلسی داس جنھوں نے رام چرت مانس ہندی بھاشا میں تصنیف کی ہے ،اکبر بادشاہ کے ہی زمانے میں ہوئے ہیں۔انھوں نے اپنی ہندی شاعری میں کافی الفاظ فارسی زبان کے استعمال کیے ۔جیسے گریب نواز(غریب نواز) جین(زین) ساج(ساز) جہاج(جہاز) پرمان(فرمان) بجار(بازار) وغیرہ وغیرہ۔ اس زمانہ کے قریب ہی سور داس ہوئے ہیں۔انھوں نے بھی اپنی ہندی شاعری میں اسی طرح کے فارسی الفاط کا استعمال کیا ہے۔‘‘۲۳؎
جوہرؔ دیوبندی کے مذکورہ اقتباس سے اختلاف کی گنجایش موجود ہے۔اوّل تو یہی کہ جوہر دیو بندی نے اپنی بات کو مستند بنانے کے لیے کسی بھی حوالے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔دوم انھوں نے بعض روایات کی بنیاد قیاس آرائی پر رکھی ہے نہ کہ تحقیق پر۔یہاں یہ سوال بھی قائم ہوتا ہے کہ تلسی داس نے رام چرت مانس کو ’ہندی‘زبان میں لکھا یا ’اودھی ‘میں؟ہندی ادب کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تلسی داس نے ’رام چرت مانس‘کو اودھی زبان میں تخلیق کیا تھا۔اس زمانے میں ہندی رسم الخط یعنی دیو ناگری کا استعمال نہیں ہوتا تھا۔البتہ اتنا ضرور ہے کہ شمالی ہند کے ایک علاقے میں اودھی کو فوقیت حاصل تھی۔مینا بازار کے قیام کاحکم اکبر باد شاہ نے نہیں بلکہ شاہ جہاں نے دیا تھا ۔اس کی تصدیق معتبر کتابوں اور عبدالحلیم شررکے ناول’’مینا بازار‘‘۲۴؎سے بھی ہوتی ہے۔علاوہ ازیں دہلی جامع مسجد سے متصل ’’مینا بازار‘‘بھی ہے ۔موصوف نے باد شاہ اکبر سے منسوب ایک اُردو رباعی کو بھی اپنے مضمون میں شامل کیا ہے۔رباعی ملاحظہ کیجیے:
پوچھی جو گھڑی مجھ سے براہِ عادت
تو وصل کو ساعت کی نہیں کچھ حاجت
ہو جاتی ہے ملنے سے مبارک ساعت
ساعت کا بہانہ نہیں خوش ہر ساعت
حیرانی کی بات یہ ہے کیا اتنی صاف ستھری زبان میں کبھی اکبر نے اُردو زبان میں شاعری کی تھی؟اس ضمن میں بھی کوئی مستند حوالہ موصوف نے پیش نہیں کیا۔البتہ جوہرؔ دیو بندی نے اس رباعی کو ’تزک جہاں گیر‘میں دیکھنے کی بات لکھی ہے ۔حالاں کہ انھوں نے ’تزک جہاں گیر‘کا حوالہ اپنے مضمون میں پیش نہیں کیا۔اسی طرح موصوف نے نور جہاں کو فارسی کی شاعرہ لکھا ہے اور ان کے دو شعر۲۵؎ جو اُردو زبان میں ہیں کو قارئین کی خدمت میں پیش کیا ہے:
دیں جگر زخمِ جفا کو دلِ صد چاک میں ہم
دیکھیں گر کچھ بھی وفا اس بُت بیباک میں ہم
نقشِ پا کی طرح اے راحتِ جانِ عاشق
تیرے قدموں سے جدا ہو کے ملے خاک میں ہم
مذکورہ بالا اشعار کا کوئی حوالہ جوہر دیو بندی نے اپنے مضمون میں پیش نہیں کیا۔شاہ جہاں کے زمانے کے دو شاعروں ولی رام ولیؔ اور پنڈت چندر بھان برہمنؔکو جوہر دیو بندی نے امیر خسرو کے بعد شمالی ہند میں ریختہ گو شاعر قرار دیا ہے۔جوہر دیو بندی نے اورنگ زیب عالم گیر کی دکن میں فوج کشی کے واقعے کو اندوہ ناک قرار دیتے ہوئے لکھا کہ تمام فوج دکن میں جمع ہو گئی ،یہاں لڑائی میں اتنا عرصہ ہو گیا کہ کچھ ایسے سپاہی جن کی شادیاں حال ہی میں ہوئی تھیں کہ نو عروسوں نے انتظار میں بال سفید کر لیے اور اشتیاق نامے لکھ لکھ کر وہاں اپنے شوہروں کو بھیجے۲۶؎۔وہاں سے جواب آیا :
بیٹھی رہو قرار سے اور من میں راکھو دھیر
منتی کرو اس سائیں سے کہ بھوریں عالم گیر
اس کے بعد جوہر دیو بندی نے لکھا کہ :
’’فوج شمالی ہند سے دکن پہنچی اور کافی عرصہ تک وہاں قیام رہا اور کیسے کیسے عالم فاضل لوگ ساتھ تھے تو وہاں کے قیام نے دکن کے لوگوں کے ساتھ بات چیت اور میل ملاپ کا اچھا موقعہ دیا جس کا انجام یہ ہوا کہ سب زبانیں شیر شکر ہو کر ایک ہو گئیں اور اب یہ زبان تقریر سے تحریر کے میدان میں اُتر آئی۔‘‘۲۸؎
مذکورہ اقتباس میں جوہر دیو بندی نے قیاس آرائی سے کام لیا ہے۔ اورنگ زیب عالم گیرسے کئی سو سال قبل ہی علاء الدین خلجی نے تیرہویں صدی میں دکن فتح کا آغاز کیا تھا۔ بعد میں محمدبن تغلق نے دہلی کے بجائے دولت آباد کو اپنی دارالسلطنت قرار دیا تھا ۔محمد بن تغلق کے حکم سے دہلی کے عالم و فاضل لوگ دولت آباد منتقل ہوگئے۔کچھ عرصہ بعد باد شاہ نے اپنا فیصلہ ترمیم کیا اور دولت آباد سے دوبارہ دہلی کو اپنی دارالحکومت قرار دیا۔ اس طرح بہت سے لوگ دکن میں ہی مقیم ہو گئے۔ کچھ نے دکن اور دہلی کے درمیانی علاقوں کو اپنا مسکن بنایا ۔محمد تغلق کے اس فیصلے سے سیاسی اعتبار سے تو نقصان ہوا لیکن اُردو زبان کو فروغ حاصل ہوا۔ دکن میں رہ کر بہت سے عالموں نے اسلام کی تبلیغ مقامی زبان میں کی۔جس کے نتیجے میں دکنی اُردو کو فروغ حاصل ہوا۔ اگر جوہر دیو بندی مذکورہ بالا نکات کو مد نظر رکھتے تو بہتر ہوتا۔موصوف نے اپنے مضمون میں زیب النساء بیگم دختر عالم گیر اورنگ زیب کوفارسی کی شاعرہ کے ساتھ اُردو کی شاعرہ بھی لکھا ہے۔انھوں نے زیب النساء بیگم کے چند اشعار بھی قارئین کی خدمت میں پیش کیے اور لکھا کہ اُردو زبان اب خاص و عام کی زبان ہوتی جا رہی ہے۔۲۸؎
جدا مجھ سے مرا یار خدا نہ کرے
خدا کسی کے تئیں دوست سے جدا نہ کرے
صنم جو تجھ سے ہوا آشنا سو جی سے گیا
خدا کسی کے تئیں تجھ سے آشنا نہ کرے
اس کے بعد جوہر دیو بندی نے 18دکنی شعرا کی فہرست اپنے مضمون میں پیش کی جنھوں نے اُردو زبان میں شاعری کی۔انھوں نے اس بات کا افسوس ظاہر کیا کہ دکنی شاعروں کے کلام کی کتابیں زیادہ تر شائع نہ ہو سکیں اور جو کتابیں شائع ہوئیں وہ دکن تک ہی محدود رہیں۔ شمالی ہند کے زیادہ تر لوگ دکنی شعرا کے کلام سے ایک مدت تک محروم رہے۔جوہر دیو بندی نے شاہ عالم آفتابؔ کے شعری ذوق پر بھی خامہ فرسائی کی ہے۔بہادر شاہ ظفر کے زمانے کو انھوں نے اُردو زبان کے لیے بامِ عروج قرار دیا۔
1857کے ناکام انقلاب کے بعد اُردو زبان میں انگریزی الفاظ کی شمولیت پر جوہر دیو بندی نے توجہ مبذول کی۔ اس ضمن میں ان کا ماننا ہے کہ بہت سے انگریزی لفظ معمولی رد و بدل کے ساتھ اُردو شعر و ادب میں رائج ہو چکے ہیں۔انھوں نے ایسے انگریزی لفظوں کی فہرست اپنے مضمون میں پیش کی جن کا تلفظ اب اُردو میں کچھ اور ہی ہے:
رنگروٹ Recruit
لالٹین Lantern
لٹھا Long Cloth
ڈپٹی Deputy
رپٹ Report
اردلی Orderly
کپتان Captain
بیرا Bearer
پلٹن Battalior۲۹
اس کے بعد جوہر دیو بندی نے اُن ہندی الفاظ کی فہرست اپنے مضمون میں شامل کی جو اُردو میں رائج ہیں:
اُردو ہندی
ساون شراون
پھاگن پھاگن
دکن دکشن
برات بریاترا
کھیت چھیتر
چودھری چھتردھاری؎۳۰
موصوف نے اسی مضمون میں جان گل کرسٹ،فورٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات اور مغربی مستشرقین بالخصوص ڈاکٹر فیلن کے اُردو لغت کا تذکرہ کیا ہے۔ڈاکٹر فیلن کے اُردو لغت کی ترتیب میں مسلم اور ہنود اصحاب ماسٹر پیارے لال ،بابو چرنجی لال اور فقیر چند وغیرہ کا ذکر بھی جوہر دیو بندی نے کیا ہے۔انھوں نے منشی نول کشور کی ادبی خدمات کا بھی ضمناً ذکر کیا ہے۔ البتہ وہ اس بات پر نالاں ہیں کہ بہت سے لوگوں نے اہلِ ہنود کی ادبی خدمات کا اعتراف فراخ دلی سے نہیں کیا۔اس کے بعد موصوف نے شعرائے ہنود کا کلام تخلص کے اعتبار سے کتاب میں شامل کیا ہے۔’نغمۂ ناقوس‘کا قطعۂ تاریخ۳۱؎ اخلاق حسین واصف عابدی سہارن پوری نے لکھا ہے :
جلوۂ فہم و فراست، نغمۂ ناقوس ہے
فکر و دانش کی لطافت نغمۂ ناقوس ہے
نغمۂ ناقوس کے جوہر ہیں واصفؔ آشکار
آبروئے علم و حکمت نغمۂ ناقوس ہے
کتاب کے آخر میں جوہر دیو بندی نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے ذریعے تفویض کی گئی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری کی نقل پیش کی ہے۔جس کا مضمون قارئین کی خدمت میں حاضر ہے:
بہ خدمت:
’’محترمی و مکرمی جوہرؔ صاحب
آداب و خلوص
مجھے شیخ الجامعہ کی طرف سے آپ کو یہ اطلاع دینے کی ہدایت ملی ہے کہ جناب کے بیش بہا ادبی کارنامے ’موجِ گنگ‘ (تحقیقی شاہ کار) پر آنر کمیٹی کی ’بزمِ اُردو‘ کی سفارش پر یونی ورسٹی نے بہ طور اعتراف’ڈاکٹر آف لٹریچر‘ کی اعزازی سند منظور کر لی ہے،جناب کی ڈاکٹریٹ کی سند پر26مئی 1985کو شیخ الجامعہ نے دستخط ثبت فرمائے اور اس طرح جناب کو ڈاکٹر کا اعزاز تفویض کر دیا گیا ۔ یونی ورسٹی نے آپ کو اپنے اسمِ گرامی کے ساتھ لفظ ’ڈاکٹر‘ بہ طور خطاب اضافہ کرنے کا حق دے دیا ہے ۔سالِ آیندہ طلبہ تقسیم اسناد کے خصوصی ضمیمہ میں جناب کو یہ سند شیخ الجامعہ کے ہاتھوں سے پیش کر دی جائے گی۔اُمید کہ مزاج گرامی بہ خیر ہوگا۔
نیاز مند
ڈاکٹر ضیاء الحسن جیلانی
سکریٹری آنر کمیٹی‘
اس موقع ’نغمہ ناقوس‘میں شامل چند شعرا کا کلام قارئین کی خدمت میں حاضر ہے :
اے حامیانِ قوم وہ ہمّت کہاں گئی
اے رہبرانِ قوم وہ جدّت کہاں گئی
اے مشفقانِ قوم وہ اُلفت کہاں گئی
اے قادرانِ قوم وہ قدرت کہاں گئی
ہے نیند میں یہ قوم جگا دو ذرا اسے
جو سیدھا راستہ ہو بتا دو اسے
(ماسٹر داس تیواری حامیؔ)
عشق شبنم نہیں شرارا ہے
راز یہ مجھ پہ آشکارا ہے
اک کرم کی نگاہ کر دیجیے
عمر بھر کا ستم گوارا ہے
رقص میں ہیں جو ساغر و مینا
کس کی نظروں کا یہ اشارا ہے
ایسی منزل پہ آ گیا ہوں
تیرے غم کا فقط سہارا ہے
لوٹ آئے ہیں یار کے در سے
وقت نے جب ہمیں پکارا ہے
دل نہ ٹوٹے تو ذرّہ ناچیز
کیمیا ہے جو پارا پارا ہے
عشق کرنا ہے مات کھا جانا
اس میں جیتا ہوا بھی ہارا ہے
اپنے درشنؔ پہ اک نگاہِ کرم
کہ غمِ زندگی کا مارا ہے
(سردار درشن سنگھ ڈوگل)
۳۔صہبائے کُہن:تذکرۂ شعرائے مسلم (قدیم)
’صہبائے کُہن‘جوہرؔ دیوبندی کا تیسرا تذکرہ ہے جو طالب پرنٹنگ پریس ،سہارن پور سے طبع ہو کر 1992میں منظرِ عام پر آیا۔اس کی ضخامت 228صفحات پر مشتمل ہے۔اس تذکرے میں جوہرؔ دیو بندی نے 101منتخب مسلم شعرا یعنی ولی دکنی سے الطاف حسین حالی تک کا تعارف و نمونۂ کلام شامل کیا ہے۔اس کے آخر میں ترقیمے کے طور پر مئی 1992کی تاریخ درج ہے۔اس تذکرے کے سر ورق پر ذوق دہلوی کے مشہور شعر:
رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوقؔ
اولاد سے تو ہے یہی دو پشت چار پشت
کولکھا گیاہے۔حالاں کہ شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ کا یہ شعر’کلیاتِ ذوق‘،مرتبہ تنویر احمد علوی میں اس طرح ہے:
رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوقؔ
اولاد سے رہے یہی دو پشت چار پشت۳۲؎
اس کے بعد جوہر دیو بندی نے اپنا پیش لفظ ’حرفِ آغاز‘عنوان سے رقم کیا ہے۔ اس پیش لفظ میں زیادہ ترباتیں ’نغمۂ ناقوس‘کے پیش لفظ سے مستعار ہیں۔یعنی تاریخ زبان اُردو پر اس میں باتیں رقم کی گئی ہیں۔یہاں ان باتوں کو دہرانا مقصد نہیں ۔بلکہ گذشتہ صفحات پر ان پر مفصل و مدلل گفتگو کی جا چکی ہے۔موصوف نے اُردو ادب میں مسلم شعرا کی تعداد اور ان کے ادبی کار ناموں پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا:
’’اُردو ادب میں مسلم شعرا کی تعداد کہیں زیادہ ہے ۔لہٰذا تمام شعرا کا احاطہ کرنا ایک مصنف کے لیے نا ممکنات میں سے ہے ۔چوں کہ اُردو شاعری میں مسلم شعرا کا حصہ نمایاں طور پر رہا ہے ۔اس لیے میری خواہش ہوئی کہ مخصوص مسلم شعرا کا بھی ایک مختصر تذکرہ دستاویزی صورت میں اہلِ ادب کے سامنے لایا جائے ۔اس کوشش میں ،میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں یہ فیصلہ کرنا تو اہلِ نظر اور اہلِ فن حضرات کا کام ہے۔’صہبائے کُہن‘ادبی زندگی کا ایک ایسا سرمایہ ہے جس کو مستقبل کے لیے محفوظ رکھنا ضروری ہے۔’صہبائے کُہن ‘کے آئینہ میں ہم دورِ گذشتہ کے ماحول اور معاشرے سے نیز شعرائے ماضی کے افکار و احوال کا جائزہ لے کر زبانِ حال کے گیسو سنوار سکتے ہیں۔شعرائے مقدمین کی ادبی خدمات اور ان کی ان تھک ادبی اور علمی کاوش ہمارے لیے چراغِ راہ کا کام دے سکتی ہیں اور ہم ان سے بہت کچھ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔۔۔’صہبائے کُہن‘حاضر ہے اُن حضرات کی خدمت میں جو اُردو ادب سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں اور اس کے لیے بے لوث خدمت انجام دے رہے ہیں۔۳۳؎
‘صہبائے کُہن‘پر تقریظ علامہ گُر شرن لال ادیب لکھنوی(برادرخُردگوپی ناتھ امنؔلکھنوی)نے ’عظیم شاہ کار‘عنوان سے رقم کی ہے۔اس تقریظ میں ادیبؔ لکھنوی نے جوہرؔ لکھنوی کی شعری و فنی جہات پر سلیقگی کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ موصوف نے جوہر دیو بندی کے حالاتِ زندگی اور ان کے تحقیقی کارناموں پر بھی اظہارِ خیال کیا ہے۔ ادیبؔ لکھنوی نے جوہرؔ دیو بندی کی تذکرہ نویسی کے باب میں نا قابلِ فراموش خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا:
’’تذکرہ نویسی کے سلسلے میں آپ کو ابھی ایک قدم اور آگے بڑھ کر ایک معرکہ اور سر کرنا تھا یعنی قدیم مسلم شعرا کے تذکرہ کو کتابی صورت میں پیش کرنا ۔چناں چہ آپ اس منزل کو بھی طے کر چکے ہیں اور یہ ادبی شاہ کار ’’صہبائے کُہن‘‘کے عنوان سے اہلِ نظر کے رو برو موجود ہے۔اس تذکرہ میں ولیؔ دکنی سے الطاف حسین حالی پانی پتی تک کے دور کے قریب ایک صد مستند مسلم شعرا کا تعارف اور نمونۂ کلام مرتب کر کے اہلِ ادب کی خدمت میں پیش کرنا اس ضعیفی کے عالم میں جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔آپ کی اعلا ہمتی کی داد دینی پڑتی ہے۔‘‘۳۴؎
’’صہبائے کُہن‘‘کا مقدمہ سید اختر الاسلام(مدیر ،میرٹھ میلہ)نے’’نایاب تحفہ‘‘عنوان سے لکھا ہے۔اس مقدمے میں انھوں نے جوہرؔ دیو بندی کی شاعرانہ صلاحیتوں اور بہ حیثیت تذکرہ نگار ان کے کار ناموں پر مفصل تنقیدی گفتگو کی ہے۔سید اختر الاسلام نے اپنے مقدمے میں جوہر دیو بندی کی رواداری اور قومی یک جہتی کے باب میں دی گئی ان کی خدمات کا بھر پور حاطہ کیا ہے۔بقول سید اختر الاسلام دارالعلوم دیوبند کے مارچ 1980کے صد سالہ پروگرام میں جوہر دیو بندی نے خاص طور سے شرکت کی۔اس صد سالہ جلسے میں جوہر دیو بندی نے ایک مرصع تہنیتی نظم بہ عنوان ’دارلعلوم دیو بند‘موزوں کر کے پیش کی۔جو شیشے کے فریم میں اسی وقت سے دارلعلوم کے آفس کی دیوار پر آویزاں ہے۳۵؎۔
سید اختر الاسلام نے اپنے مقدمے میں ایک حیران کُن خلاصہ اس بات کا کیا کہ جوہرؔ دیو بندی نے اپنے پہلے تذکرے ’موجِ گنگ‘ متنازع فیہ غزل’ سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ‘غزل بسمل عظیم آبادی کی نہیں بلکہ رام پرشاد بسمل شاہ جہاں پوری کی بتایا ہے۔ جوہر ؔ دیوبندی نے اپنی بات کی شہادت کے لیے رام پرشاد بسمل کی بہن شاشتری دیوی سے خط و کتابت کی تھی جس میں انھوں نے مذکورہ غزل کو بسمل شاہ جہاں پوری کی بتایا تھا۔اس پورے واقعے کو سید اختر الاسلام نے بیان کرتے ہوئے لکھا:
’’جوہرؔ صاحب نے اپنی تذکرہ نویسی میں بہت احتیاط برتی ہے اور حتی الامکان یہ کوشش کی ہے کہ کوئی غلط بات اشاعت میں شامل نہ ہو۔’موجِ گنگ‘ میں آپ نے شہیدِ وطن پنڈت رام پرشاد بسملؔ کو بہ طور شاعر شامل کیا ہے اور اس کتاب کا انتساب بھی ان کے ہی نام کیا ہے ۔جب کہ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ بسملؔ جوشیلے مجاہدِ حریت تھے اور جوشیلی وطنی نظمیں گا گا کر پڑھنا ان کی فطرت تھی۔ جب جوہرؔ صاحب سے ان موضوع پر تذکرہ ہوا اور بسملؔ صاحب کی غزل بہ عنوان ’سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘کو متنازع بتایا گیا تو جوہر ؔ نے بسملؔ صاحب کی بہن شاشتری دیوی سے ہوئی اپنی خط و کتابت سامنے رکھ دی جس میں کہا گیا ہے کہ بسمل ؔصاحب بہ ذاتِ خود عظیم فطری شاعر تھے۔اور متنازع غزل انھیں کی ہے۔اس سے جوہرؔ صاحب کی صدق دلی پر وافر روشنی پڑتی ہے۔‘‘۳۶؎
حالاں کہ گذشتہ سطور میں مذکورہ بالا غزل کے بارے میں تفصیلی بحث ہو چکی ہے ۔پھر بھی راقم الحروف ایک بار پھر یہ کہنا چاہتا ہے کہ تحقیقی شواہد سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ مذکورہ غزل رام پرشاد بسمل کی نہیں بسملؔعظیم آبادی کی ہے۔مزید تفصیل کے لیے محمد اقبال کی کتاب’بسمل عظیم آبادی:شخصیت اور فن‘ناشر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی،2008کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے جس میں ’سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میںہے‘پر مفصل تحقیقی گفتگو کی گئی ہے۔ محمد اقبال نے اس کتاب صفحہ67پربسملؔ عظیم آبادی کی مذکورہ غزل پر ان کے استاد شادؔ عظیم آبادی کے اصلاح کردہ صفحے کے عکس کو حوالے کے طور پر شائع کیا ہے۔ اس کی نقل محمد اقبال نے خدا بخش اورینٹل لائبریری پٹنہ سے حاصل کیا ہے۳۷؎۔مذکورہ بحث کے سلسلے میں میری ناقص رائے ہے کہ جوہر ؔ دیو بندی کو چاہیے تھا کہ وہ رام پرشاد بسمل کی بہن شاشتری دیوی سے ہوئی خط و کتابت کو’موجِ گنگ‘یا ’نغمۂ ناقوس‘میں ضمیمے کے طور پر شامل کرتے تاکہ قارئین بھی اس پوری بحث سے مستفیض ہوتے۔
’صہبائے کہن‘کاتاریخی قطعہ۳۷؎ جوہرؔ دیوبندی کے شاگردمنظور احمد مظلومؔ کشمیری نے لکھا:
ہر فضا مخمور ہے سرشار ہیں اربابِ فن
کیف کی وادی بنی ہے سرشار ہیں اربابِ فن
سج رہی ہے بزم ساقی مست ہیں مظلومؔ سب
یہ پی رہے ہیں پینے والے جامِ ’صہبائے کُہن‘
بہر کیف! جوہر دیو بندی نے مذکورہ تینوں تذکروں کو بہت ہی جاں فشانی ،تلاش و جستو کے بعد شائع کیا۔انھوں نے اپنے تذکروں کو مستند بنانے کے لیے تاریخی کتابوں ،رسائل و جرائد سے خوب استفادہ کیا۔ حالاں کہ ان کی ذاتی لائبریری میں بہت سی کتابیں تھیں جن میں ہنود شعرا کے کارنامے درج تھے۔اس کے باوجود انھوں نے بہت سے کتب خانوں میں جاکر اپنے مطلب کا مواد حاصل کیا۔جوہر دیو بندی نے ان تذکروں کی تکمیل میںجہاں ایک جانب بہت سے شعرا و ادبا کا شکریہ ادا کیا وہیں دوسری جانب انھیں اس بات کا قلق رہا کہ نام نہاد شعرا و ادبا نے ان کی مدد نہیں کی ۔بلکہ موصوف کی ادبی کاوشوں کو انھوں نے مذہبی عینک سے دیکھنے کی کوشش کی۔الغرض ! جوہرؔ دیوبندی نے شب و روز کی تگ و دو اور ذاتی مشق سے مذکورہ بالا تینوں تذکروں کو قارئین کے سامنے پیش کیا۔ان کی ادبی کاوشوں پراردو اکادمی لکھنؤ نے انھیں انعامات سے سرفراز کیا۔وہیں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی نے انھیں ’موجِ گنگ‘کی اشاعت پر ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی ۔اُردو دنیا میں جب بھی تذکرہ نویسی کی تاریخ مرتب کی جائے گی تو ان میں جوہرؔ دیوبندی کا نام جلی حرفوں سے لکھا جائے گا۔لیکن یہاں یہ عرض کردوں کہ ڈاکٹر رئیس احمد نے اپنی تحقیقی کتاب’اُردو تذکرہ نگاری:1835کے بعد‘ناشر عرشیہ پبلی کیشنز،نئی دہلی ،اشاعت اگست 2011میں جوہرؔ دیوبندی کے مذکورہ تینوں تذکروں پر کوئی تنقیدی بحث شامل نہیں کی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جوہرؔ دیو بندی کی تذکرہ نویسی کے باب میں انجام دی گئی خدمات سے لوگوں نے چشم پوشی اختیار کی ۔میں سمجھتا ہوں کہ جوہرؔ دیوبندی کے ادبی کارناموں کا مفصل تنقیدی و تحقیق جائزہ یونی ورسٹی سطح پر لیا جائے تو بہتر ہو۔ اگرجوہر ؔ دیوبندی کی ادبی کاوشوں پرتحقیقی و تنقیدی نگاہ نہیں ڈالی تو آیندہ وقت میں یہ مخلص ادیب و شاعراوراقِ پارینہ کا قصہ بن جائے گا۔آخر میں ،راقم جوہر دیو بندی کے شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہے جس میں انھوں نے صالح معاشرے کی تعمیر میںانسانی قدروں کے تقدس کومقدم رکھا ہے:
اپنی منزل سے بہت دور ہے انساں جوہرؔ
ابھی آیا نہیں انسان کو انساں ہونا
حواشی:
۱؎ جدید اُردوتنقید کے اصول و نظریات،شارب ردولوی،اتر پردیش اردو اکادمی،لکھنؤ،اشاعت ثانی1987،ص۱۵۲تا۱۵۳
۲؎ کلیاتِ جوہر،۱۹۸۸ء،ص ۷
۳ ؎ ایضاً،ص ۵اور۶
۴؎ موجِ گنگ(تذکرۂ شعرا ئے ہنود،ابتدا ئے شاعری تا انیسویں صدی)محبوب پریس دیوبند،۱۹۸۳ء،ص ۷
۵؎ ایضاً،ص ۷
۶؎ ایضاً ،ص۷
۷؎ اُردو کا ابتدائی زمانہ،شمس الرحمن فاروقی،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،نئی دہلی،۲۰۱۱ء،ص۱۲
۸ ؎؎ موجِ گنگ(تذکرۂ شعرا ئے ہنود،ابتدا ئے شاعری تا انیسویں صدی)محبوب پریس دیوبند،۱۹۸۳ء،ص ۷
۹؎ ایضاً،ص ۱۲
۱۰؎ ایضاً، ص۱۵
۱۱؎ ایضاً،ص۱۶
۱۲؎ حکایت ہستی،مجموعۂ کلام سید شاہ محمد حسن بسمل مرحوم عرف شاہ چھبّو،مرتبہ سید شاہ مہدی حسن، سید شاہ ہادی حسن نسیمؔ،ناشر سید شاہ اختر حسن،اشاعت اگست۱۹۸۰ء،ص ۴۶
۱۳؎ نغمۂ ناقوس:تذکرۂ شعرائے ہنود۱۹۰۱ء تا۱۹۲۵ء،محبوب پریس دیو بند،۱۹۸۵ء،ص۱۸
۱۴؎ ایضاً،ص ۵
۱۵؎ ایضاً، ص ۶
۱۶؎ ایضاً، ص ۹
۱۷؎ ایضاً، ص ۱۱تا۱۲
۱۸؎ ایضاً، ص ۱۳
۱۹؎ ایضاً، ص ۱۴تا۱۵
۲۰؎ ایضاً،ص ۱۵
۲۱؎ ایضاً، ص۱۵
۲۲؎ایضاً،ص ۱۷
۲۳؎ ایضاً ،ص۱۹تا۲۰
۲۴؎ مینا بازار از عبدالحلیم شرر، دل گداز پریس،لکھنؤ،۱۹۲۵ء
۲۵؎ نغمۂ ناقوس،:تذکرۂ شعرائے ہنود۱۹۰۱ء تا۱۹۲۵ء،محبوب پریس دیو بند،۱۹۸۵ء،ص۲۱
۲۶؎ ایضاً،ص۲۳
۲۷؎ ایضاً ،ص۲۳
۲۸؎ ایضاً،ص ۲۳
۲۹؎ایضاً، ص ۲۸
۳۰؎ ایضاً، ص ۲۹
۳۱؎ ایضاً، ص ۱۲
۳۲؎ کلیاتِ ذوق،مرتب ڈاکٹر تنویر احمد علوی، ناشر مجلس ترقی ادب،لاہور،،۱۹۶۷ء،ص ۲۱۳
۳۳؎ صہبائے کُہن،دیو بندی جوہر،طالب پرنٹنگ پریس،سہارن پور، ۱۹۹۲ء،ص۷
۳۴؎ ایضاً، ص ۹
۳۵؎ ایضاً، ص ۱۵
۳۶؎ ایضاً۱۴
۳۷؎ ’بسمل عظیم آبادی:شخصیت اور فن‘،محمد اقبال، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی،۲۰۰۸ء،ص ۶۶
۳۸؎ نغمۂ ناقوس:تذکرۂ شعرائے ہنود۱۹۰۱ء تا۱۹۲۵ء،محبوب پریس دیو بند،۱۹۸۵ء،ص۱۸
DR.IBRAHEEM AFSAR
Ward No-1,Mehpa Chauraha
Nagar Panchayat Siwal Khas
Distt Meerut(U.P)250501
MOB-9897012528
Email:ibraheem.siwal@gmail.com
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں